اِن پرانی اور قیمتی تصویروں میں سے کچھ ایسے سیاہ فام امریکی فوجیوں کے چہرے جھانکتے ہیں، جو امریکی خانہ جنگی میں شامل ہوئے تھے۔اِس جنگ میں تقریباً دو لاکھ سیاہ فام امریکیوں نے امریکہ کی جنوبی ریاستوں کے خلاف لڑنے والی شمالی ریاستوں کی اتحادی فوج کا ساتھ دیا تھا۔
اِن تصویروں میں اُس وقت کے رہن سہن کے کچھ ایسے مناظر نمایاں ہیں جِن کے بارے میں شاید بہت کم امریکیوں کو علم ہوگا، اور اِس جنگ سے کچھ دلچسپ کہانیاں بھی منسلک ہیں۔
اٹیل ڈوگن، الگزینڈر کے پرنانا رابرٹ بانڈ 1846ء میں برطانیہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اِن کے بارے میں یہ کہانی سناتے ہیں: ’وہ سترہ سال کے تھے جب اُنھیں امریکہ میں سیاہ فام امریکیوں کی جدوجہد کے بارے میں معلوم ہوا۔ میری والدہ اُن کے بارے میں بتاتی تھیں کہ وہ ایک چھوٹی سی کشتی پر سفر کرتے ہوئے امریکی ریاست میساچیوسٹس آئے تھے۔ کیونکہ وہ غلاموں کو آزادی دلانے میں اُن کی مدد کرنا چاہتے تھے۔‘
اٹیل، ایک تاریخ داں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے پرنانا شمالی ریاستوں کی بحریہ میں رہے اور ایک خطرناک لڑائی میں بال بال بچے۔ اُن کے مطابق، اُن کے پرنانا مستقبل کی خاطر قربانیاں دینے کو تیار تھے۔
’کتنی حیرت کی بات ہے کہ برطانیہ میں رہنے والے ایک لڑکے نے غلامی کے موضوع پر ایک گفتگو سننے کے بعد اپنے خاندان سے دور کسی دوسرے ملک کا رُخ کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک ایسا قدم اُٹھایا جس سے نہ صرف اُس کی اپنی زندگی بلکہ اُن کی آنے والی نسلوں کی زندگی بھی بالکل بدل گئی۔‘
الیگزینڈر اِس کہانی سے انتی متاثر ہوئیں کہ اُنھوں نے بانڈ خاندان کی تاریخ پر کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ، ’تعصبانہ رویوں میں اضافہ ہونے لگا اور سیاہ فام امریکیوں کو الگ کیا جانے لگا۔ بعض اوقات تو سیاہ فام امریکیوں کی صورتِ حال پہلے سے بھی بدتر ہوگئی۔انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کی ابتدا میں امریکہ کی شمالی ریاستوں کی طرف سیاہ فام امریکیوں کی نقل مکانی شروع ہوگئی جس کا سیاہ فام امریکیوں پر گہرا اثر پڑا۔‘
’یہ لوگ عموماً کھیتی باڑی سے منسلک رہتے تھے۔ اِنھوں نے کھیتوں پر کام کیا تھا اور اب وہ بڑے شہروں کا رُخ کر رہے تھے جِن کے چیلیج سے نمٹنے کو وہ تیار نہیں تھے۔ اِس کے نتیجے میں خاندان بکھرنا شروع ہوگئے جِس کے اثرات میں سمجھتی ہوں ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔‘
الیگزینڈر کہتی ہیں کہ خانہ جنگی کے نتیجے میں نہ صرف غلاموں نے آزادی پائی بلکہ سیاہ فام امریکیوں کو خود مختاری بھی ملی لیکن اِس کے کچھ منفی نتائج بھی تھے۔
امریکی محکمہٴ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق سیاہ فام امریکی بچوں میں سے تقریباً 50فی صد کی تربیت والدین میں سے صرف ایک کے زیرِ نگرانی ہوتی ہے اور سیاہ فام امریکیوں میں بیروزگاری کی شرح 15.5فی صد ہے، جو قومی اوسط سے تقریباً دوگنا زیادہ ہے۔
’امریکی خانہ جنگی ملک میں غلامی کے ورثے کا حصہ تھی جس کا آج بھی سیاہ فام امریکیوں پر بہت گہرا اثر ہے۔‘
بینجامن ٹورچیلس، امریکہ کے سب سے پرانی شہری آزادیوں کی تنظیم، نیشنل ایسو سی ایشن فور دِی ایڈوانس منٹ آف کلرڈ پیپل کے سربراہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ، ’اِس تنظیم کی بنیادی ری پبلیکنز نے ڈالی تھی۔ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا تعلق بھی ریپبلیکن پارٹی سے ہی تھا جس کی روایت ہے کہ وہ مختلف لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرے۔ ہمیں امید ہے کہ ملک بھر میں لوگ خانہ جنگی کی سالانہ تقریب کے موقعے کو اِس بات پر غور و فکر کے لیے استعمال کریں گے کہ پرانے اختلافات کو پیچھے چھوڑ کر ایک نیا اتحاد قائم کرنا کتنا ضروری ہے۔‘
گو بہت سے لوگ اِس سے متفق ہیں لیکن بعض دوسرے لوگ سمجھتے ہیں کہ خانہ جنگی کے بعد دیکھے گئے اِس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہوگی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: