اسپاٹ فکسنگ کے الزامات پر تین پاکستانی کرکٹ کھلاڑیوں کولمبے عرصے تک کی سزا ہونے پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہ ڈاکٹر نسیم اشرف نے اپنی گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ سزا کا جواز بنتا ہے، کیونکہ کرکٹ میں بدعنوانی کو بخشا نہیں جا سکتا۔
ہفتے کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی)کے ایک ٹربیونل نے پاکستان ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ کو 10سال کی سزا سنائی، جس میں سے پانچ برس قابلِ معافی سزا ہے؛ جب کہ فاسٹ باؤلر محمد آصف کو سات اور نوجوان محمد عامر کو پانچ سال کی سزا سنائی ہے۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک بیان میں ڈاکٹر اشرف نے کہا کہ یہ خبر نہ صرف بٹ، آصف اور عامر کے لیے بلکہ کرکٹ کی دنیا، خصوصی طور پر پاکستان کرکٹ کے لیے صدمے کا باعث ہے۔ اُنھوں نے محض 18برس کے عامر کے لیے انتہائی دکھ کا اظہار کیا جو بد عنوانی کی کیچڑ میں دھنس کر رہ گیا۔
تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ کرپشن اور قانون کی خلاف ورزی ایسے جرائم ہیں جِنھیں کسی صورت برداشت نہیں کیا جانا چاہیئے اور جِس میں یہ تینوں کھلاڑی ملوث پائے گئے۔ اُن کے بقول، تینوں نہ صرف اپنے لیے ندامت کا باعث بنے بلکہ پوری قوم کا نام شرم سے جھکا دیا۔
اُنہوں نے کہا کہ کھیل کو اِس قسم کے عامروں اور آصفوں سے پاک کرنے کے لیے اور عالمی سطح پر کرکٹ کی نیک نامی کے لیے دی گئی سزا قابلِ جواز ہے۔ یہ سزا، نوجوان اور بڑی عمر کے کرکٹروں کے لیے ایک سبق کا درجہ رکھتی ہے۔ بات یہ ہے کہ کرکٹ میں کرپشن کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔ اُنھوں نے اِس امید کا اظہار کیا کہ اِس سے سبق سیکھا جائے گا۔
اِن تینوں کھلاڑیوں پر لارڈز میں گذشتہ سال انگلستان کے خلاف ٹیسٹ کے دوران بدعنوانی کا الزام اُس وقت سامنے آیا جب برطانیہ کے اخبار ‘نیوز آف دِی ورلڈ’نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ دانستہ طور پر ‘نو بال’ کرانے پر تیار تھے۔
اخبار نے الزام لگایا تھا کہ وہ برطانیہ میں رہائش پذیر ایجنٹ مظہر مجید کی طرف سے اسپاٹ فکسنگ کے چکر میں حصہ دار تھے۔
ڈاکٹر نسیم اشرف کا کہنا تھا کہ کرکٹ کے کھلاڑی کسی بھی ملک خصوصاً پاکستان میں پرستاروں کے لیےایک علامتی درجے کے حامل اور ‘رول ماڈل’ ہوتے ہیں۔ اُنھیں ا چھےکردار کا مالک ہونا چاہیئے، اور اُنھیں اُس اعتماداور امانتداری پر پورا اترنا چاہیئے جس کا تقاضا قوم اُن سے کرتی ہے۔