’وہاں جو کچھ ہونے والا ہے، ہمیں اُس پر سنگین خدشات ہیں۔ اقوام متحدہ کی امن کار افواج کو تعینات کیا جائے۔ لیکن، کیونکہ یہ ایسی بات ہے جس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو کرنا ہے، جہاں روس کو ویٹو کا حق حاصل ہے، اس لیے ایسا ہونا ممکن نہیں لگتا‘
واشنگٹن —
کرائمیا سے تعلق رکھنے والے تاتاریوں کے ایک رہنما نے کہا ہے کہ وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ بحیرہ اسود کے اس جزیرے میں بین الاقوامی امن کار افواج بھیجی جائے، جسے حال ہی میں روس نے یوکرین سے علیحدہ کرکے اپنے ساتھ نتھی کر لیا ہے۔
انسانی حقوق کے معروف سرگرم کارکن، مصطفیٰ زمیلیف 1966ء سے 1986ء کے دوران سات بار سویت جیل کاٹ چکے ہیں۔ اُنھوں نے یہ بات پیر کے روز نیو یارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لتھوانیہ پر منعقد ہونے والی نشست کے دوران غیر رسمی کلمات میں کہی۔
اجلاس کے بعد، زمیلیف نے ’وائس آف امریکہ‘ کی ’روسی سروس‘ کو بتایا کہ اُنھیں ڈر ہے کہ روسی حکمرانی کے دوران کرائمیا کے تاتاریوں کو ہدف بنایا جائے گا، اور وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ بین الاقوامی امن کاروں کو کرائمیا تعینات کیا جائے۔
اُن کے بقول، ’وہاں جو کچھ ہونے والا ہے، ہمیں اُس پر سنگین خدشات ہیں۔ اقوام متحدہ کی امن کار افواج کو تعینات کیا جائے۔ لیکن، کیونکہ یہ ایسی بات ہے جس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو کرنا ہے، جہاں روس کو ویٹو کا حق حاصل ہے، اس لیے ایسا ہونا ممکن نہیں لگتا‘۔
زمیلیف نے کہا کہ دوسرا راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ نیٹو کی افواج کو بھیجا جائے، جیسا کہ کوسووو کے معاملے میں کیا گیا تھا۔
بقول اُن کے، لیکن اس میں مسئلہ یہ درپیش ہوگا کہ نیٹو تبھی آتا ہے جب شدید خون ریزی ہو چکی ہوتی ہے۔ اور کیونکہ ہم لوگ حقائق سے آگاہ ہیں اس لیے چاہتے ہیں کہ خون خرابے سے پہلے ہی ضروری تدابیر کی جائیں۔
سنہ 1944میں سویت مطلق العنان، جوزف اسٹالن نے نازی جرمنی کے ساتھ مبینہ سازباز کرنے کی پاداش میں کرائمیا کے تاتاریوں کو ملک بدر کردیا تھا؛ اور وہ 1991ء سے وہ جزیرہ پر واقع اپنے تاریخی سرزمین کی طرف واپس آنے لگے۔
آج، کرائمیا کی تقریباً 20 لاکھ کی آبادی میں تاتاریوں کی تعداد 12 فی صد ہے۔
روس کے مطابق، 16 مارچ کو منعقد ہونے والے ریفرینڈم میں 96فی صد سے زائد افراد نے کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ ڈالا، اور 83 فی صد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
زمیلیف نے زور دے کر کہا کہ 32 فی صد سے زیادہ لوگوں نے ووٹ نہیں ڈالا۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ماسکو کی طرف سےکرایا جانے والا ریفرینڈم ’نامعقول‘ تھا، کیونکہ، اُن کے خیال میں، کسی علاقے کی خود ارادیت کا حق صرف و صرف علاقے کے مقامی لوگوں کے پاس ہوا کرتا ہے، جو کرائمیا کے معاملے میں تاتاری ہی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اُنھوں نے ریفرینڈم کا بائیکاٹ کیا تھا۔
اقوام متحدہ میں روسی مشن نے کرائمیا پر پیر کے دِن منعقد ہونےو الی سلامتی کونسل کی غیررسمی نشست کا بائیکاٹ کیا تھا، جسے روس نے ’متعصب بنیاد پر کیا جانے والا پروپیگنڈا شو‘ قرار دیا۔
انسانی حقوق کے معروف سرگرم کارکن، مصطفیٰ زمیلیف 1966ء سے 1986ء کے دوران سات بار سویت جیل کاٹ چکے ہیں۔ اُنھوں نے یہ بات پیر کے روز نیو یارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لتھوانیہ پر منعقد ہونے والی نشست کے دوران غیر رسمی کلمات میں کہی۔
اجلاس کے بعد، زمیلیف نے ’وائس آف امریکہ‘ کی ’روسی سروس‘ کو بتایا کہ اُنھیں ڈر ہے کہ روسی حکمرانی کے دوران کرائمیا کے تاتاریوں کو ہدف بنایا جائے گا، اور وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ بین الاقوامی امن کاروں کو کرائمیا تعینات کیا جائے۔
اُن کے بقول، ’وہاں جو کچھ ہونے والا ہے، ہمیں اُس پر سنگین خدشات ہیں۔ اقوام متحدہ کی امن کار افواج کو تعینات کیا جائے۔ لیکن، کیونکہ یہ ایسی بات ہے جس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو کرنا ہے، جہاں روس کو ویٹو کا حق حاصل ہے، اس لیے ایسا ہونا ممکن نہیں لگتا‘۔
زمیلیف نے کہا کہ دوسرا راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ نیٹو کی افواج کو بھیجا جائے، جیسا کہ کوسووو کے معاملے میں کیا گیا تھا۔
بقول اُن کے، لیکن اس میں مسئلہ یہ درپیش ہوگا کہ نیٹو تبھی آتا ہے جب شدید خون ریزی ہو چکی ہوتی ہے۔ اور کیونکہ ہم لوگ حقائق سے آگاہ ہیں اس لیے چاہتے ہیں کہ خون خرابے سے پہلے ہی ضروری تدابیر کی جائیں۔
سنہ 1944میں سویت مطلق العنان، جوزف اسٹالن نے نازی جرمنی کے ساتھ مبینہ سازباز کرنے کی پاداش میں کرائمیا کے تاتاریوں کو ملک بدر کردیا تھا؛ اور وہ 1991ء سے وہ جزیرہ پر واقع اپنے تاریخی سرزمین کی طرف واپس آنے لگے۔
آج، کرائمیا کی تقریباً 20 لاکھ کی آبادی میں تاتاریوں کی تعداد 12 فی صد ہے۔
روس کے مطابق، 16 مارچ کو منعقد ہونے والے ریفرینڈم میں 96فی صد سے زائد افراد نے کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ ڈالا، اور 83 فی صد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
زمیلیف نے زور دے کر کہا کہ 32 فی صد سے زیادہ لوگوں نے ووٹ نہیں ڈالا۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ماسکو کی طرف سےکرایا جانے والا ریفرینڈم ’نامعقول‘ تھا، کیونکہ، اُن کے خیال میں، کسی علاقے کی خود ارادیت کا حق صرف و صرف علاقے کے مقامی لوگوں کے پاس ہوا کرتا ہے، جو کرائمیا کے معاملے میں تاتاری ہی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اُنھوں نے ریفرینڈم کا بائیکاٹ کیا تھا۔
اقوام متحدہ میں روسی مشن نے کرائمیا پر پیر کے دِن منعقد ہونےو الی سلامتی کونسل کی غیررسمی نشست کا بائیکاٹ کیا تھا، جسے روس نے ’متعصب بنیاد پر کیا جانے والا پروپیگنڈا شو‘ قرار دیا۔