بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ڈاکٹر سبرامنین سوامی ایک بار پھر مسلمان مخالف بیان کے باعث شہ سرخیوں میں ہیں۔ ایک حالیہ انٹرویو میں بی جے پی رہنما نے متنازع شہریت بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان بھارت کے لیے خطرہ ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ "جہاں بھی مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہوتی ہے وہاں دشواریاں پیدا ہوئی ہیں۔"
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جس ملک میں مسلمانوں کی آبادی تیس فی صد سے زائد ہوئی وہ ملک خطرے میں پڑ گیا۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 14 برابری سے متعلق پوچھے گئے سوال پر اُن کا موقف تھا کہ مسلمان کسی صورت ہندوؤں کے برابر نہیں ہو سکتے۔ لہذٰا اس شق کی غلط تشریح کی جاتی ہے۔
بی جے پی رہنما کے اس بیان پر جہاں انتہا پسند حلقے اُن کی حمایت کر رہے ہیں وہیں بعض طبقات کی جانب سے اُنہیں شدید تنقید کا بھی سامنا ہے۔
مبصرین کے مطابق ڈاکٹر سبرامنین سوامی انتہاپسندانہ سوچ کے حامل اور مسلمانوں کے سخت خلاف ہیں۔ لیکن اُنہیں زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ پھر بھی وہ وقتاً فوقتاً متنازع بیانات دیتے رہتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی بی جے پی لیڈر کے ان بیانات کی مذمت کی تھی۔ ایک ٹوئٹ میں عمران خان کا کہنا تھا کہ 21 ویں صدی میں بی جے پی کی حکومت آج مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہی ہے، جو نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا۔
ڈاکٹر سبرامنین سوامی 1939 میں ریاست تمل ناڈو کے میلاپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیتا رمن سبرامنین ایک بیوروکریٹ تھے۔ والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں۔
انہوں نے دہلی یونیورسٹی سے ریاضی میں ماسٹر کرنے کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی۔ وہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) دہلی میں تدریس کے پیشے سے وابستہ تھے۔ لیکن انہیں آزاد معاشی پالیسیوں کو فروغ دینے کی وجہ سے ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا۔
اس کے بعد وہ سیاست میں آ گئے۔ انہوں نے لوک سبھا کا پہلا الیکشن بھارتیہ جن سنگھ (جنتا پارٹی) کی حمایت سے لڑا اور جیتا تھا۔
سبرامنین سوامی کا شمار جنتا پارٹی کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ وہ 1990 سے 2013 تک اس کے صدر رہے۔ 2013 میں انہوں نے اسے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں ضم کر دیا۔
وہ 1974 سے 1999 کے دوران پانچ مرتبہ لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ وہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے سخت مخالف سمجھے جاتے تھے۔
سبرامنین سوامی 1990 سے 1991 کے دوران پلاننگ کمیشن کے ممبر رہے ہیں۔
سبرامنین سوامی نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کے دوران 1966 میں ایک بھارتی پارسی خاتون رخسانہ کپاڈیہ سے شادی کر لی تھی۔
ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ بڑی بیٹی گیتانجلی سوامی ایک تاجر ہیں۔ انہوں نے ایک ہندو سے شادی کی ہے۔ دوسری بیٹی سہاسنی حیدر سابق سفارت کار سلمان حیدر کے بیٹے ندیم حیدر کی بیوی ہیں۔ سہاسنی ایک صحافی ہیں اور اس وقت انگریزی روزنامہ 'دی ہندو' سے وابستہ ہیں۔
مسلمانوں سے ووٹ کا حق واپس لینے کا مطالبہ
اُنہوں نے 2013 میں ممبئی میں مرحلہ وار بم دھماکوں کے بعد انگریزی اخبار 'ڈی این اے' میں لکھے گئے کالم میں تمام مساجد کو منہدم کرنے کی وکالت کی تھی۔
اس کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لینے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ وہ تواتر سے یہ مطالبہ دہراتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف انہی مسلمانوں کو ووٹ دینے کا حق ملنا چاہیے جو یہ تسلیم کریں کہ ان کے آباؤ اجداد ہندو تھے۔
ممبئی حملوں کے بعد بھی انہوں نے ایسا ہی ایک مضمون روزنامہ 'انڈین ایکسپریس' میں لکھا تھا۔ جس پر کارروائی کرتے ہوئے ہارورڈ یونیورسٹی نے معاشیات میں پڑھائے جانے والے ان کے دو کورسز کو ختم کر دیا تھا۔
قومی کمیشن برائے اقلیتی امور نے 2011 میں ان کے مذہبی منافرت پر مبنی مضامین کی وجہ سے ان کے خلاف کیس قائم کیا تھا۔ عدالت نے اس شرط پر انہیں ضمانت دی تھی کہ وہ ایسے متنازع مضامین نہیں لکھیں گے۔
وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے کے بھی زبردست حامی رہے ہیں۔ وہ یہ مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں کہ کشمیر میں پنڈتوں کے لیے ”پنن کشمیر“ کے نام سے ایک خطہ تشکیل دیا جائے۔
سبرامنین سوامی ہندوؤں کے مذہب تبدیل کر کے دوسرے مذاہب میں داخل ہونے کے بھی خلاف ہیں اور ہندوؤں کی تبدیلی مذہب کو قانونی طور پر روکنا چاہتے ہیں۔
سبرامنین سوامی نے مسلم مخالف جذبات رکھنے کے باوجود 1987 میں میرٹھ کے ہاشم پورہ میں ہونے والے قتل عام کی مخالفت کی تھی اور اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔
ہاشم پورہ میں نیم مسلح دستے پی اے سی کے جوانوں نے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران 42 مسلمانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
سوامی نے تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے مطالبے کے ساتھ نئی دہلی کے علاقے جنتر منتر پر ایک ہفتے سے زائد تک دھرنا دیا بھی تھا۔
سونیا گاندھی کے سخت مخالف
سبرامنین سوامی کانگریس صدر سونیا گاندھی کے بھی سخت مخالفوں میں سے ہیں۔ انہوں نے کانگریس پارٹی کی ملکیت والے انگریزی روزنامہ 'نیشنل ہیرالڈ' کی کمپنی'ایسو سی ایٹیڈ پرائیویٹ لمٹیڈ' میں سونیا اور راہول گاندھی پر بدعنوانی کا الزام عائد کیا۔ سونیا اور راہول گاندھی اس مقدمے میں ضمانت پر ہیں۔