بھارت میں مسلم رہنماؤں نے مسلمان نوجوانوں کی داعش میں شمولیت کو روکنے کے لیے حکومتی منصوبے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ داعش بھارتی نوجوانوں کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتی۔
تلنگانہ ریاست اور وفاقی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے شدت پسندی کی طرف مائل نوجوانوں کے بارے میں رپورٹیں ملنے کے بعد بھارت کی وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ داعش بھارت کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے۔
وزارت داخلہ مشاورت، کمیونیٹی پروگراموں اور ملاقاتوں کے ذریعے مسلمان نوجوانوں کو داعش میں شامل ہونے سے روکنے کا ایک منصوبہ تیار کر رہی ہے۔
بھارت کی 29 ریاستوں میں سے 12 کو خاص طور پر اس خطرے سے دوچار سمجھا جا رہا ہے۔ ان 12 ریاستوں سے کہا گیا ہے کہ وہ والدین اور مقامی رہنماؤں سے مل کر مسلمان نوجوانوں تک پہنچنے کی حکمت عملی وضع کریں۔
داعش میں شمولیت بہت کم
وزارت داخلہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں 25 بھارتی نوجوانوں کی شناخت کی گئی جو داعش سے متاثر ہوئے۔ ان سے 12 نے شام اور عراق میں داعش میں شمولیت اخیتار کی۔
نئی دہلی میں قائم ادارے ’انسٹی ٹیوٹ آف کانفلکٹ مینجمنٹ‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اجے ساہنی نے کہا کہ داعش گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد کی القاعدہ سے اس طرح مماثلت رکھتی ہے کہ اس کی حمایت میں اضافہ تو ہو سکتا ہے مگر اس کا بھارت پر کوئی حقیقی اثر نہیں ہو گا۔
’’اگرچہ بھارت میں متحرک کچھ گروہوں نے اسامہ بن لادن سے وفاداری کا علامتی اعلان کیا تھا مگر اس کے ملک پر کوئی خطرناک اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ داعش کے ساتھ بھی یہی صورتحال ہے۔ اگرچہ ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا میں مگر حقیقت یہ ہے کہ بھارت سے چند لوگ ہی شام اور عراق میں داعش میں شامل ہونے کے لیے بھارت سے گئے۔ اس لیے داعش کا بھارت میں خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘
بہت سے مسلمان مذہبی رہنماؤں نے داعش کی طرف سے وحشیانہ تشدد کے استعمال کے باعث اس کی مذمت کی ہے۔
لکھنؤ شہر کے شاہی امام مولانا خالد رشید فرنگی محالی نے کہا کہ بھارت کے 18 کروڑ مسلمانوں کی بھرپور اکثریت داعش کو ’اسلام مخالف‘ گروہ سمجھتی ہے، اس لیے انتہا پسندی کے خاتمے کا پروگرام بے معنی ہے۔
ہندو اکثریتی ملک بھارت میں مسلمان سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں اور آبادی کے 14 فیصد حصے پر مشتمل ہیں۔
مذہبی تقسیم کا خدشہ
مبصرین کا خیال ہے کہ اس پروگرام سے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور شبہات پیدا ہو سکتے ہیں جنہیں ماضی میں مذہبی بنیادوں پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
تاہم حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تلنگانہ میں اس قسم کے پروگرام سے خاطر خواہ کامیابی ملی ہے اور یہ دیگر جگہوں پر بھی یہ کامیاب ہوگا۔
تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں پولیس کمشنر ناگی ریڈی نے کہا کہ ’’جب ہم نے شام اور عراق میں داعش میں شمولیت اختیار کرنے کا ارادہ رکھنے والے لڑکوں کو پکڑا تو ہم نے ان کو انتہا پسندی کے خاتمے کے پروگرام سے گزارا۔ ہم نے ان کے والدین، مقامی عمائدین اور مذہبی رہنماؤں سے مدد لی۔ لڑکوں نے اس پر اچھے ردعمل کا اظہار کیا اور ہمیں اپنے ہدف پر پہنچنے میں مدد دی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مذہبی رہنماؤں نے ان نوجوانوں کو قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا کہ قرآن کی نظر میں داعش کی سرگرمیوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کے بقول اب وہ نوجوان معمول کی زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے اہل خانہ کے لیے امن کا باعث ہیں۔
اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیراعظم اور وزیر داخلہ دونوں گزشتہ سال کہہ چکے ہیں کہ القاعدہ اور داعش کی نئے لوگ بھرتی کرنے کی کوششیں بھارت میں کامیاب نہیں ہوں گی۔ ان کے بقول بھارتی حکومت کی انتہا پسندی کو روکنے کی کوششیں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف غیر حقیقی خوف کو جنم دیں گی۔