لگ بھگ سات ماہ کے تعطل کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ ویزوں کا اجرا اور شہریوں کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس پر کاروباری افراد نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
کابل اور جلال آباد میں پاکستانی جب کہ اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے کے ذریعے ویزے جاری کیے جا رہے ہیں۔ تاہم پشاور میں افغان قونصل خانے نے افغانستان جانے والے پاکستانی باشندوں کو ویزوں کا اجرا فی الحال شروع نہیں کیا۔
کابل میں افغان باشندوں نے ٹیلی فون پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ پاکستانی سفارت خانے نے نئی ویزا پالیسی کے تحت پیر سے ویزے جاری کرنا شروع کر دیے ہیں۔ تاہم ویزوں کی یومیہ تعداد کے بارے میں معلومات حاصل نہیں ہو سکیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان مصروف ترین گزرگاہ طورخم کے ذریعے پیر کو تقریباً 15 افغان باشندے پاکستان میں داخل ہوئے جن میں سے زیادہ تر مریض اور ان کے قریبی رشتہ دار تھے۔
اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت حانے کے ایک عہدیدار نے بتایا ہے کہ روزانہ صبح نو بجے سے گیارہ بجے تک ویزوں کے لیے درخواست فارم وصول کیے جاتے ہیں اور ویزا جاری ہونے میں پانچ سے دس دن تک لگ جاتے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان کی نئی افغان ویزا پالیسی میں تاجروں اور طلبہ کے لیے سہولتیںکابل میں ویزا کے حصول کے لیے پاکستانی سفارت خانے کے سامنے جمع ہونے والے افغان باشندوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے مگر افغان باشندوں کے بقول تقریباً ایک ہزار افراد کو روزانہ کی بنیاد پر ویزے جاری کیے جا رہے ہیں۔
ویزوں کے حصول کے لیے افغانستان کے دور دراز علاقوں سے آنے والے سیکڑوں افراد کابل میں پاکستانی سفارت حانے کے سامنے رات گزارنے پر مجبور ہیں۔
دوسری جانب پشاور میں افغان قونصل خانے کے عہدیداروں نے بتایا ہے کہ اب تک افغانستان جانے والے پاکستانی باشندوں کو ویزوں کے اجرا کا سلسلہ شروع نہیں ہوا ہے۔
منگل کو پشاور میں افغان قونصل خانے کے باہر موجود افراد نے بتایا کہ اُن کے پاسپورٹ گزشتہ برس مارچ کے وسط میں جمع ہوئے تھے اور اب اُنہیں ویزا جاری کیے بغیر پاسپورٹ واپس کر دیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ افغانستان جانے والے پاکستانی باشندوں میں اکثریت کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔ پشاور میں ویزوں کے اجرا میں تاخیر سے مقامی افراد بالخصوص تاجروں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
طورخم میں قبائلی تاجر قاری نظیم گل شینواری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان سے آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ویزوں کے اجرا اور آمد و رفت کا سلسلہ مزید آسان کرے۔
تاجروں کا اظہارِ اطمینان
افغانستان سے پاکستان آنے والوں کی بحالی سے پشاور کے کاروباری حلقے بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔
پشاور کی ہوٹل کی صنعت کے سرکردہ رہنما خالد ایوب نے آمد و رفت کے بحالی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے نہ صرف دونوں ملکوں کی معیشت کو فائدہ ہوگا بلکہ اس سے اس خطے میں ترقی اور امن و امان کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہوگا۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی سفیر صادق خان کے مشورے پر پاکستان نے رواں ماہ افغانستان کے لیے ویزا پالیسی کا اعلان کیا تھا۔
اس پالیسی کے مطابق بغرض علاج معالجہ آنے والے مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کو ویزا جاری کیا جائے گا اس کے علاوہ پاکستان میں کاروبار، تجارت اور دیگر معاشی سرگرمیوں اور طلبہ کے لیے تین اور پانچ سال تک کے ویزوں کا اجرا شامل ہے۔
SEE ALSO: پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت تین ماہ بعد بحالدوسری جانب افغان حکومت نے پاکستان جانے والوں کے لیے اب تک ویزا پالیسی کا اعلان نہیں کیا ہے۔
سرحد پار افغانستان کے لوگوں نے پاکستان کی ویزا پالیسی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ اس پالیسی سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔
افغانستان میں روسی افواج کی موجودگی کے دوران بھی پاکستان اور افغانستان کے لوگوں کی آمد و رفت کے لیے ویزا اور پاسپورٹ کی پابندی نہیں تھی۔ سرحد سے ملحقہ قبائلی اضلاع کے تمام اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے زیادہ تر لوگوں کو دہری شہریت کی بنیاد پر افغانستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم و تربیت اور سرکاری اداروں میں ملازمت کی سہولیات اور حقوق بھی حاصل تھے۔
تاہم نائن الیون واقعے کے بعد رفتہ رفتہ دونوں ممالک کے درمیان آمد و رفت اور دو طرفہ تجارت کا سلسلہ سرحدی اور ویزا پابندیوں کے باعث متاثر ہونا شروع ہوا۔
توقع کی جارہی ہے کہ پاکستان کی نئی ویزا پالیسی پر عمل درآمد سے دونوں ملکوں کے درمیان آمد و رفت اور دو طرفہ تجارت میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ہونے میں مدد ملے گی۔