ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی حالیہ رپورٹ میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں میں اضافے کی نشان دہی کے بعد یہ معاملہ ایک بار پھر موضوعِ بحث ہے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق گزشتہ برس ملک میں جبری گمشدگیوں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ ہوا جب کہ مذہبی اقلیتوں اور خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کے واقعات، توہین مذہب کے مقدمات اور اشتعال انگیزی بھی بڑھ گئی۔
ایچ آر سی پی نے سال 2022 میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال سے متعلق بدھ کو رپورٹ جاری کی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں لاپتا افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا، دہشت گردی کے واقعات میں سیکیورٹی فورسز پر حملے بڑھے اور گوادر میں سیاسی بنیادوں پر حق دو تحریک کے قائد اور کارکنوں پرایک درجن سے زائد مقدمات قائم کیے گئے۔
لاپتا نوجوان ذاکر مجید کے اہل خانہ کی روداد
"اب تک ایسا قلم ہی نہیں بنا جو ذاکر مجید کی جدائی میں ان کی ماں کے درد کو لکھ سکے۔ میری ماں گزشتہ 14 سال سے اس انتظار میں ہیں کہ کب میرا بیٹا گھر لوٹے گا۔"
یہ الفاظ ہیں بلوچستان سے لاپتا ہونے والے نوجوان ذاکر مجید کی ہمشیرہ ڈاکٹر شبانہ مجید کے جو برسوں سے اپنے لاپتا بھائی کی واپسی کے انتظار میں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر شبانہ کا کہنا تھا کہ آٹھ جون 2009 کو ذاکر اپنے دو دوستوں کے ہمراہ بلوچستان کے ضلع نوشکی سے مستونگ آرہے تھے جہاں پڑنگ آباد کے علاقے میں ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے اُنہیں گرفتار کر کے لاپتا کر دیا۔ مستونگ ہی میں کچھ کلومیٹر دور ان کے دیگر دو دوستوں کو چھوڑ دیا گیا تاہم ذاکر مجید کو اپنے ساتھ لے گئے۔
شبانہ نے بتایا کہ سات ماہ تک پولیس ذاکر کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے کو تیار نہیں تھی۔
اُن کے بقول "میری بہن فرزانہ نے بھائی کی بازیابی کے لیے طویل احتجاجی کیمپ لگایا، عدالتوں میں گئے اور کمیشن بنے لیکن انصاف نہیں ملا۔"
شبانہ کہتی ہیں کہ "جب عدالت میں 2018 میں ذاکر کا کیس چل رہا تھا تو لیویز کے ایک اہلکار خضدار میں ہمارے گھر آئے اور والدہ سے کہا کہ آپ اسٹامپ پیپر پر حلفیہ بیان لکھ کر دیں کہ میں ریاستی اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کروں گی اور یہ کہ میرا بیٹا مستقبل میں کسی ریاست کے خلاف کسی قسم کی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوگا۔"
اُن کے بقول والدہ نے جواب دیا کہ بیٹا پہلے بھی بے گناہ تھا لیکن پھر بھی وہ یقین دلاتی ہیں کہ میرا بیٹا کسی ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہو گا۔
شبانہ نے الزام لگایا کہ ریاستی اداروں نے یہ اشٹامپ پیپر بنوا لیا اور پھر اسے عدالت میں غلط رنگ دے کر بتایا کہ ذاکر مجید کی والدہ نے بیانِ حلفی دے دیا ہے کہ اُن کا بیٹا لاپتا نہیں ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ ہوا: رپورٹخیال رہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور لوگوں کو لاپتا کیے جانے کے الزامات کی سختی سے تردید کرتے رہے ہیں۔ ریاستی اداروں کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ قانون کے مطابق صوبے میں شر پسندی پھیلانے والے عناصر کے خلاف حرکت میں آتے ہیں۔
اداروں کا یہ بھی دعویٰ رہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے الزامات بیرونِ ملک بیٹھے بلوچ علیحدگی پسند رہنما عائد کرتے ہیں جب کہ جن افراد کو لاپتا ظاہر کیا جاتا ہے اُن میں سے بیشتر پاکستان سے جا چکے ہیں۔
'انصاف ملنے کی توقع کیا کریں ہم تو اس لفظ سے ہی ناآشنا ہیں'
شبانہ نے بتایا کہ انصاف کا لفظ ہم بھول ہی چکے ہیں۔ ہمیں تو کیا شاید بلوچستان کے کسی بھی لاپتا شخص کو انصاف نہیں ملا ہے حتی کہ لوگ احتجاجی مظاہروں میں عالمی اداروں سے بھی انصاف کی اپیل کرتے ہیں مگر ان کی جانب سے بھی کوئی مدد نہیں کی جاتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام کو انصاف اس وقت ملے گا جب ریاست اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مخلص ہو گی کیوں کہ ریاست اب تک بلوچوں کی جبری گمشدگی کو کوئی مسئلہ نہیں سمجھتی۔
ذاکر مجید کون ہیں؟
ڈاکٹر شبانہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے بھائی ذاکر مجید اسکول کے زمانے سے ہی طلبہ سیاست کا حصہ رہے ہیں انہوں نے ابتدائی تعلیم بلوچستان کے ضلع خضدار سے حاصل کی اور بعد میں میرین یونیورسٹی اوتھل میں ایم اے انگلش میں داخلہ لیا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے سیاسی شعور اور سیاسی حقوق کے حصول کے لیے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن( بی ایس او ) کا حصہ رہے اور بعد میں بی ایس او کے وائس چیئرمین بنے۔
ڈاکڑ شبانہ کا مطالبہ ہے کہ اگر حکومت اور ریاست کو شک ہے کہ ذاکر مجید کسی بھی طرح ریاست کے خلاف کسی کام میں ملوث ہے تو اسے عدالت میں پیش کرکے اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے نہ کہ ان کی جدائی میں اس طرح ان کی بوڑھی ماں کو تڑپایا جائے ۔
Your browser doesn’t support HTML5
کیا حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان پر سیاسی بنیادوں پر مقدمات بنے؟
بلوچستان میں حال ہی میں گوادر کو حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان کی گرفتاری کا معاملہ بھی موضوعِ بحث بنا ہوا تھا۔
ناقدین یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ مولانا ہدایت الرحمان کو سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا ہے۔ تاہم حکومتی ادارے اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔
حق دو تحریک کے ترجمان حفیظ کیازئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حق دو تحریک شروع کرنے کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ گوادر اور بلوچستان کے عوام کو ان کے حقوق دلوائے جائیں۔
حفیظ کے بقول "ہم نے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے گوادر کے ماہی گیروں کے حقوق کی بات کی، ہم نے ریاست سے گوادر کے لیے گیس، بجلی، صحت، تعلیم اور پانی جیسے بنیادی حقوق کا مطالبہ کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ "ہمارے پر امن دھرنے کو سبوتاژ کرنے کے لیے پانچ ہزار کے قریب پولیس اہلکاروں کو گوادر لایا گیا اور پانچ روز کے دوران پولیس نے حق دو تحریک کے 1300 کارکنوں کو گرفتار کیا۔
انہوں نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ مولانا ہدایت الرحمان کی زندگی کو جیل میں شدید خطرات لاحق ہیں انہیں بلا جواز کیوں جیل میں رکھا گیا ہے۔