بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 'یوم شہدائے کشمیر' کے موقع پر حکام نے عوام کو سرینگر میں واقع مزارِ شہدا پر حاضری دینے سے روک دیا جب کہ سیاسی جماعتوں کو جلسے اور جلوس کی اجازت نہیں دی گئی۔
سرینگر کے پرانے حصے میں پولیس کے اضافی دستے تعینات کردیے گئے ہیں ۔ خواجہ بازار کےعلاقے جہاں مزارِ شہدا واقع ہے ناکہ بندی کردی گئی ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ انہیں مزارِ شہدا پر حاضری دینے سے روکنے کے لیے گھر میں نظر بند کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "میں آج مزارِ شہدا جانا چاہتی تھی لیکن مجھے نظر بند کردیا گیا۔ یہ ایسے وقت میں کیا گیا جب حکومتِ بھارت نے دھوکہ دہی کے اقدام یعنی آرٹیکل 370 کی غیرقانونی منسوخی کو جواز بخشنے کے لیے سپریم کورٹ میں یہ دعوے کیے ہیں کہ حالات معمول کے مطابق ہیں۔"
ان کے بقول "بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنے سورماؤں کو جنہوں نے نفرت اور تفریق کا پرچار کیا ہم پر مسلط نہیں کرسکتی۔"
محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ "ہم تمہیں تاریخ مسخ کرنے یا ہمارے سورماؤں کو فراموش کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
ادھر ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدرعمر عبداللہ نے ایک ٹویٹ میں الزام لگایا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو پارٹی صدر دفاتر تک پہنچنے سے روکنے کے لیے پولیس نے اسکارٹ گاڑی فراہم کی اور نہ ہی محافظین دیے لیکن وہ خود گھر سے پیدل چل کر وہاں پہنچ گئےہیں۔
واضح رہے کہ نیشنل کانفرنس نے 13 جولائی کے شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے پارٹی ہیڈ کوارٹرز میں ایک اجلاس بلایا تھا۔
بعد ازاں عمر عبد اللہ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ جب اپنے گھر سے باہر آئے تو جموں و کشمیر پولیس نے ان کی گاڑیوں کے کارواں اوران کے محافظین کو روکا ۔ انہوں نےکہا "وہ مجھے 13 جولائی کے شہداکو خراجِ عقیدت پیش کرنے سے روکنا چاہتے تھے۔"
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد کُل جماعتی حریت کانفرنس نے یومِ شہدائے کشمیر کے موقع پر مزارِ شہداء پر اجتماعات کی اجازت نہ دینے اور دیگر قدغنیں عائد کرنے پر انتظامیہ پر تنقید کی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پابندیاں عائد کرنا اس لیے ناگزیر تھا تاکہ شرپسند عناصر کو امن و امان کی صورتِ حال میں رخنہ ڈالنے کا موقع نہ ملے۔
خیال رہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 90 - 1989 میں مسلح تحریک مزاحمت کے آغاز کے بعد حکام نے علیحدگی پسندوں کو یوم شہدا ئے کشمیر کے موقع پر جلسے اور جلوس نکالنے کی کبھی اجازت نہیں دی۔ بھارتی حکام اس مزاحمت کو دہشت گردی کہتے ہیں۔
البتہ اس دن کی مناسبت سے سرکاری تقریبات کا ضرور اہتمام کیا جاتا رہا ۔اس کے علاوہ 13 جولائی کو مزار شہدا پر حاضری دینے اور قبروں پر پھول چڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
لیکن 2014کے عام انتخابات کے بعد ریاست میں جب علاقائی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تو کابینہ میں شامل بی جےپی کے وزراء نے کئی دہائیوں سے جاری عمل سے انحراف کرتے ہوئے 13 جولائی کو وزیرِ اعلیٰ کے ہمراہ مزارِ شہداء پر جانے سے انکار کردیا جو بعد میں ایک سیاسی تنازعے کی شکل اختیار کرگیا۔
13 جولائی 1931 کو سرینگر کی مرکزی جیل کے باہر جب 22 کشمیری مسلمانوں کو سرکاری فورسز نے فائرنگ کرکے ہلاک کیا تھا تو جموں و کشمیر پر مہاراجہ ہری سنگھ کی حکمرانی تھی۔ مسلمانوں کی اکثریت اور سیاسی حریف جن میں نیشنل کانفرنس اور جموں و کشمیر مسلم کانفرنس شامل ہیں، انہیں ایک جابر اور ظالم حکمران سمجھتے ہیں اور کشمیر کے دونوں حصوں میں 13 جولائی کو یومِ شہدائے کشمیر کے موقع پر منعقدہ تقریبات کے دوران انہیں ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سرینگر کی مرکزی جیل کے باہر پیش آئے خونریزی کے واقعے کے بعد کشمیری مسلمانوں کی طرف سےجو سیاسی تحریک شروع کی گئی تھی اس کا بنیادی مقصد ڈوگرہ مہاراجہ اور ان کی حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کی مخالفت اور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مبینہ امتیازی سلوک کی مزاحمت کرنا تھا۔
1947میں مطلق العنان حکومت کے خاتمے کے بعد یومِ شہدائے کشمیر کو سرکاری سطح پر منایا جانے لگا جب کہ مختلف سیاسی جماعتیں اس موقع پر جلسے منعقد کرتی تھیں اور جلوس نکالتی تھیں۔ مزارِ شہدا پر دن بھر لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔
لیکن پانچ اگست 2019 کے بعد سے، جب بھارت نے اپنے زیرِانتظام کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری ختم کی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا تو وہاں جو سیاسی اور انتظامی تبدیلیاں ہوئیں ان میں 13 جولائی کی سرکاری تعطیل کو منسوخ کرنا بھی شامل تھا۔
اس کے برعکس حکومت نے بی جے پی اور ہم خیال سیاسی جماعتوں اور ڈوگروں کی نمائندگی کرنے والی مختلف تنظیموں کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے مہاراجہ ہری سنگھ کے یومِ پیدائش 23 ستمبر کو عام تعطیل کا دن قرار دے دیا۔
علاوہ ازیں جمعرات کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر ،مختلف ممالک میں مقیم کشمیری مسلمانوں نے یومِ شہدائے کشمیر منایا اور اس مناسبت سے تقریبات کا اہتمام کیا جبکہ جموں وکشمیر کی کئی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے بیانات میں 13 جولائی 1931 کے شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔