تصویر مریخ کی سطح پر موجود ایک گڑھے کی شمالی دیوار اور دہانے کی ہے جسے سائنس دانوں نے 'گال کریٹر' کا نام دے رکھا ہے۔
امریکی خلائی ادارے 'ناسا' کو مریخ پر اترنے والی اپنی خلائی گاڑی سے مریخ کی سطح کی پہلی رنگین تصویر موصول ہوگئی ہے۔
'ناسا' کی جانب سے منگل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دور سے لی گئی سرخی مائل بھورے رنگ کی یہ تصویر مریخ کی سطح پر موجود ایک گڑھے کی شمالی دیوار اور دہانے کی ہے جسے سائنس دانوں نے 'گال کریٹر' کا نام دے رکھا ہے۔
'ناسا' کے مطابق تصویر خلائی گاڑی 'کیوریوسٹی' کے روبوٹک بازو میں نصب کیمرے نے کھینچی ہے۔
یاد رہے کہ 'کیوریوسٹی' آٹھ ماہ طویل خلائی سفر کے بعد اتوار کی شب کامیابی سے مریخ کی سطح پر اتر گئی تھی۔ اس سے قبل خلائی گاڑی کے نیچے نصب کیمروں نے اس کے اترنے کے عمل کے دوران میں مریخ کی سطح کی سیکڑوں تصاویر کھینچ کر 'ناسا' کو روانہ کی تھیں تاہم سیارے پر اترنے کے بعد خلائی گاڑی کی جانب سے لی گئی یہ پہلی تصویر ہے۔
گو کہ یہ تصویر دھندلی ہے لیکن 'ناسا' کے سائنس دانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ 'کیوریوسٹی' میں نصب کیمرے 'ہائی ریزو لوشن' تصاویر بھی لینے لگیں گے۔
اپنے دو سال طویل مشن کے دوران ایک ٹن وزنی اور ایک گاڑی کے حجم کے برابر مکمل طور پر خودکار 'کیوریوسٹی' مریخ کی سطح، موسم اور وہاں موجود تابکاری کی مقدار کے جائزے کا کام انجام دے گی۔
سائنس دانوں کو امید ہے کہ ڈھائی ارب ڈالرز مالیت کے اس منصوبے سے اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنا ممکن ہوپائے گا کہ کیا مریخ پر کبھی زندگی موجود تھی اور آیا اس سرخ سیارے پر مستقبل میں کبھی زندگی گزارنے کا امکان ہے یا نہیں۔
'ناسا' کی جانب سے منگل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دور سے لی گئی سرخی مائل بھورے رنگ کی یہ تصویر مریخ کی سطح پر موجود ایک گڑھے کی شمالی دیوار اور دہانے کی ہے جسے سائنس دانوں نے 'گال کریٹر' کا نام دے رکھا ہے۔
'ناسا' کے مطابق تصویر خلائی گاڑی 'کیوریوسٹی' کے روبوٹک بازو میں نصب کیمرے نے کھینچی ہے۔
گو کہ یہ تصویر دھندلی ہے لیکن 'ناسا' کے سائنس دانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ 'کیوریوسٹی' میں نصب کیمرے 'ہائی ریزو لوشن' تصاویر بھی لینے لگیں گے۔
اپنے دو سال طویل مشن کے دوران ایک ٹن وزنی اور ایک گاڑی کے حجم کے برابر مکمل طور پر خودکار 'کیوریوسٹی' مریخ کی سطح، موسم اور وہاں موجود تابکاری کی مقدار کے جائزے کا کام انجام دے گی۔
سائنس دانوں کو امید ہے کہ ڈھائی ارب ڈالرز مالیت کے اس منصوبے سے اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنا ممکن ہوپائے گا کہ کیا مریخ پر کبھی زندگی موجود تھی اور آیا اس سرخ سیارے پر مستقبل میں کبھی زندگی گزارنے کا امکان ہے یا نہیں۔