سعودی عرب سمیت تیل پیدا کرنےوالےممالک کی طرف سے روس کے ساتھ مشاوت کے بعد پیداوار میں کمی سےامریکہ میں توانائی کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے ۔ جس سے اقتصادی، سیاسی اور بین الاقوامی اثرات ہونے کے ساتھ ساتھ واشنگٹن اور ریاض کے تعلقات کو بھی دھچکا لگنے کا اندیشہ ہے۔ لیکن کیا امریکہ اور سعودی عرب اپنے اہم باہمی تعلقات کو اس بحران سے بچا سکتے ہیں اور تعلقات میں گراوٹ سے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
ان سوالات کے بارے میں واشنگٹن کے تھنک ٹینک "دی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ" کے زیر اہتمام ایک آن لائن مباحثے میں ماہرین نے متضاد آرا کا اظہار کیا۔
مشرق وسطی کے امور کے ماہر اور "بروکنگز انٹیلی جنس پراجیکٹ" کے ڈائریکٹر بروس ریڈل نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلطان کو اس فیصلے کا ذمہ دار ٹھہرایا ۔ ریڈل نے کہا کہ امریکہ کے اعتراضات کے باوجود سعودی عرب اور تیل پیدا کرنےوالے ممالک کی تنظیم اوپیک کا یہ فیصلہ واشنگٹن کے لیے ایک انتہائی حساس وقت میں کیا گیا ہے۔
ان کے بقول ایک طرف تو تیل کی پیداور میں بیس لاکھ بیرل یومیہ کمی سے روس کو فائدہ ہو گا کیونکہ وہ یوکرین جنگ میں الجھا ہوا ہے اور اس فیصلے کے بعد صدر ولادیمیر پوٹن کو موقع مل گیا ہے کہ وہ روسی تیل کی فروخت میں اضافہ کرکے جنگ سے ہونے والے اقتصادی نقصان کو کم کرسکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسرا یہ کہ یہ فیصلہ امریکہ کے وسط مدتی انتخابات سے محض چار ہفتے قبل کیا گیا ہے اور اس سے امریکہ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور یہ ایک مسئلہ ہے جو ملک کی سیاست پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تیسرایہ کہ تیل کی پیداوار میں یہ کمی امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے پریشانی کا باعث ہے کیونکہ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل انہوں نے ولی عہد پرنس محمد سے اس کے باوجود ملاقات کی تھی کہ ولی عہد کو انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تنہا کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔
ریڈل نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کی کئی علاقائی اور بین الاقوامی جہتیں ہیں لیکن کانگریس میں سینیٹر باب مینیڈیس جیسے صدر بائیڈن کے ڈیموکریٹک اتحادی پہلے ہی ریاض کے خلاف اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ ریڈل نے تجویز دی کہ بائیڈن کو اس سلسلے میں نہ صرف ولی عہد محمد بن سلطان پر صحافی جمال خشوگی کی ہلاکت پر قائم ایک مقدمے کی روشنی میں ان کی امریکہ میں داخلے پر تاحیات پابندی لگانی چاہیے بلکہ دفاعی سازوسامان کی فروخت کو بھی روکنا چاہیے۔
دوسری طرف دفاعی امور کے ماہر اور امریکی بحریہ کے پانچویں بیڑے کے سابق کمانڈر وائس ایڈمرل کیون ڈونیگن نے امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کو ایک بڑے علاقائی اور عالمی تناظر میں دیکھنے پر زور دیا اور نشاندہی کی کہ ان اہم تعلقات کو نقصان پہنچنے کی صورت میں امریکی مفادات پر سنجیدہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ چاہے گا کہ سعودی عرب کے سرمایہ کار امریکہ میں سرمایہ کاری جاری رکھیں، امریکہ دنیا میں تجارت کے راستے کھلے رکھنا چاہتا ہے اور خلیج عرب کی راہیں تب ہی محفوظ ہوں گی جب وہاں استحکام ہوگا۔ اسی طرح، انہوں نے کہا کہ، امریکہ کا سعودی عرب سے دفاعی تعاون خطے میں امن و سلامتی اور ایران کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے امریکہ اور سعودی عرب کے انسداد دہشت گردی کے باہمی تعاون کی اہمیت کا بھی ذکر کیا۔
سعودی عرب سے تعلقات منقطع کرنے کے خیال کی ٘مخالفت کرتے ہوئے سابق ایڈمیرل ڈونیگن نے کہا کہ ایسے اقدام سے اس تاثر کو ہوا ملے گی کہ امریکہ قابل اعتبار اتحادی نہیں ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کے خطے سے پیچھے ہٹنے سے دوسرے ملکوں، خاص طور پر چین کو، موقع ملے گا کہ وہ خلا پر کرکے اپنے تعلقات اور اثرو رسوخ کو بڑھائے۔
"ہمیں ان تعلقات کو ایک مختلف دنیا میں بڑے محتاط اندز سے دیکھنا چاہیے۔ ہمیں ان تعلقات کو صرف دوطرفہ زاویے سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ اگر امریکہ وہاں سے نکلتا ہے تو روس نہ سہی، چین تو وہاں آنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔"
بروس رائیڈل نے اس خیال کی مخالفت کی کہ روس یا چین سعودی عرب کی سلامتی کے ضامن ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کے بقول دونوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین نے واشنگٹن اور ریاض کے تعلقات کا خطے پر عمومی اور ایران اور اسرائیل پر اثرات کے حوالوں سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
سابق سفارتکار اور "دی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ" کی موجودہ ممتاز سینیئرفیلو جوئین ہیلڈ کمنگز نے تعلقات میں تسلسل کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ امریکی اندرونی سیاست میں امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات پر ایک محتاط انداز اپنانے کی ضرورت ہے۔
کمنگز نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ اوپیک تنظیم کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی سے روس کو لازمی طور پر کوئی بڑا مالی فائدہ حاصل ہو گا۔
خیال رہے کہ وائٹ ہاوس نے کہا ہے کہ امریکہ نے اوپیک کی طرف سے تیل کی پیداوار میں کمی کے اعلان سے قبل ایک تجزیہ پیش کیا تھا جس سے یہ واضح تھا کہ اس اقدام سے معیشت کونقصان ہوسکتا ہے۔ صدر بائیڈن نے اس فیصلے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے منفی اثرات ہو ں گے۔
دوسری طرف سعودی عرب نے اپنے خلاف ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے اس کے برعکس کہا ہے کہ اس کے مطابق تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے میں تاخیراقتصادی طور پر نقصان دہ ہوتی۔