اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام کی پہلی خاتون سربراہ ہیلن کلارک نے کہا ہے کہ پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد متاثرہ لوگوں کو ان کے گھروں کی دوبارہ تعمیر اور روز گار میں مدد دینا ایک اعزاز ہے۔ لیکن ابھی بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے اورمتاثرین کی بحالی کے لیے تعاون جاری رکھنا بہت اہم ہے۔
گذشتہ سال جولائی میں آنے والے تاریخ کے تباہ کن سیلاب کے بعد متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں اور ضروریات کا جائزہ لینے کے لیے ہیلن کلارک اتوار کو پاکستان پہنچیں جہاں انھوں نے اپنے دورے کا آغاز ملک کے جنوبی صوبے سندھ سے کیاجو سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر رہا ۔ سات ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یہاں متعدد علاقوں میں سیلابی پانی موجود ہے۔
ہیلن کلارک نے بتایا کہ ابتدائی بحالی پروگرام کے تحت سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ان کے ادارے نے ڈونرز کے تعاون سے 120 ملین ڈالر کی مدد کا عہد کر رکھا ہے اور اب تک اسی سے نوے ملین ڈالر جمع کیے جاچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تباہی کا حجم سونامی، ہیٹی کے نقصانات سے بھی بڑا ہے اور ہمیں بحالی کے لیے بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں سیلاب سے سترہ سو کے قریب افراد ہلاک اور دو کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے جن میں ستر لاکھ صوبہ سندھ کے رہنے والے تھے۔ ۔سیلاب سے سندھ میں لاکھوں مکانات ، بڑی تعداد میں اسکول ، ہسپتال ، سڑکوں ، عمارتوں ، پانی کی فراہمی کے نظام اور صفائی کے انتظامات بھی شدید متاثر ہوئے ۔ایک ہی وقت میں لاکھوں لوگ اپنی چھتوں اور مال مویشیوں سے محروم ہوکر سڑکوں پر آگئے۔ ایسے میں ضلع دادو بھی محفوظ نہیں رہا اور یہاں انتظامی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے جو اس آفت کے گزرنے کے سات ماہ بعد بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ شہر کے متعدد حصوں میں پانی تاحال کھڑا ہے اور جہاں اتر گیا ہے وہاں گندگی کے ڈھیر نے ماحول میں شدید تعفن پھیلا رکھا ہے ۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل کے مطابق پانی کو اترنے میں مزید ایک یا ڈیرھ ماہ کا عرصہ لگے گا۔
ایسے میں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام ( یو این ڈی پی ) حکومتِ جاپان کے تعاون سے دادو کے شہر خیرپور ناتھن شاہ اور گوٹھ بھاگو توینو میں پمپنگ مشینوں کے ذریعے کھڑے پانی کو نکالنے اور گندگی کے ڈھیر کو ہٹانے کے لیے مقامی لوگوں کی مدد کی جارہی ہے تاکہ گرمیوں کے مہینوں میں وبائی امراض کے پھیلنے کو روکا جاسکے۔
صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے تقریباً 400 کلومیٹر دور ضلع دادو کے علاقہ خیرپور ناتھن شاہ کی آبادی ڈیڑھ لاکھ ہے۔ یہاں لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے اور آبادی کی اکثریت غریب لوگوں کی ہے۔ یو این ڈی پی کی جانب سے ان علاقوں میں لوگوں کو مکانات بھی تعمیر کر کے دیے جارہے ہیں۔ ہیلن کلارک نے ان علاقوں کا مختصر دورہ کرتے ہوئے اْن بیوہ خواتین کو جن کے گھرسیلابی لہروں کی نذر ہوگئے تھے ، نئے گھروں کی ملکیت کے کاغذات پیش کیے۔انھوں نے بتایا کہ ان علاقوں میں یو این ڈی پی ، ڈونرز کی مدد سے لوگوں کو دو سو مکانات تعمیر کرکے دے رہاہے۔ ان کا کہنا تھا ” اگرچہ تباہی بہت زیادہ ہے اس لیے وہ حکومت ِ پاکستان کے ساتھ مل کر اس تعداد کو ایک لاکھ تک بڑھاسکتے ہیں۔ “
ان گھروں میں شمسی توانائی سے چلنے والی لالٹینیں اور واٹر ہیٹر موجود ہیں۔ جبکہ کمیونل مقامات بھی سولر اسٹریٹ لائٹ کی مدد سے روشن ہوتے ہیں۔ گھروں کی تعمیر مقامی لوگوں کے ذریعے یو این ڈی پی کی ” کیش فار ورک “ اسکیم کے تحت کی گئی ہے جو لوگوں کو اپنے علاقوں کی ازسرِ نو تعمیر کے ساتھ روزگار کا ذریعہ بھی فراہم کرتی ہے۔یہاں موجود لوگوں بالخصوص بزرگ خواتین کا کہنا تھا کہ وہ نئے گھروں کی تعمیر پر بے حد خوش ہیں۔
سرور کے گھر کی تعمیر آخری مراحل میں ہے ۔وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اس اسکیم سے فائدہ اٹھایا۔ وہ کہتے ہیں کہ سیلاب میں ان کا سب کچھ بہہ گیا ہے لیکن وہ خوش ہیں کہ انھیں اپنا گھر مل گیا ہے۔
سیلاب کو سات ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد متاثرین کے لیے کی جانے والی امدادی کارروائیاں ہنگامی امداد سے نکل کر ابتدائی بحالی کے مراحل میں داخل ہونے کو ہیں لیکن حال ہی میں اقوامِ متحدہ کے عہدیداروں نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان کے متعدد علاقوں بالخصوص صوبہ سندھ میں اب بھی بڑی تعداد میں لوگوں کو ہنگامی امداد کی ضرورت ہے اور اس مشکل سفر کو طے کرنے کے لیے سیلاب متاثرین کو حکومت اور غیرسرکاری امدادی تنظیموں کے ساتھ بین الاقوامی برادری کا بھی مسلسل تعاون درکار ہوگا۔