یوکرین اور روس نے ایک دوسرے پر خیرسون میں ایک دریا پر بنائے گئے اہم ترین ڈیم کو تباہ کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ڈیم کا ایک حصہ تباہ ہونے سے جنوبی یوکرین میں ایک بڑا علاقہ زیر آب آنے کا اندیشہ ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں ڈیم کا تباہ ہونے والا حصہ نظر آ رہا ہے۔
یہ ڈیم لگ بھگ 95 فٹ بلند اور تین کلو میٹر طویل ہے۔ یہ ڈیم دریائے نیپرو پر 1956 میں قائم کیا گیا تھا۔
اس ڈیم سے 2014 سے روس کےزیر تسلط، یوکرین کے علاقے کرائمیا کو پانی فراہم ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یوکرین کے جوہری بجلی گھر کو درکار پانی بھی یہاں سے حاصل کیا جاتا تھا، جس پر روس کا قبضہ ہے۔
روس کی سرکاری خبر ایجنسی ’تاس‘ کے مطابق روسی حکام کا دعویٰ ہے کہ ڈیم کو پہنچنے والے نقصان سے جوہری بجلی گھر کو کسی بھی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ یہ یورپ کا سب سے بڑا ایٹمی پلانٹ ہے۔
خیرسون میں روس کی جانب سے تعینات کردہ عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ ڈیم کے قریبی علاقوں سے شہریوں کے انخلا کا عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ ان کے بقول پانی خطرناک حد تک پہنچنے میں پانچ سے چھ گھنٹے لگیں گے۔
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے نوا کاکوا میں ڈیم تباہ ہونے کے بعد نیشنل سیکیورٹی اینڈ ڈیفنس کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔
یوکرین کے صدر نے کہاہے کہ روس کو یوکرین کے ہر حصے سے باہرنکالنا ہوگا۔ یوکرین کی کامیابی سے ہی امن قائم ہوگا۔
یوکرین کے وزیرِ خارجہ نے ڈیم کی تباہی کو روس کا گھناؤنا جنگی جرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ڈیم کی تباہی یورپ میں کئی دہائیوں میں ٹیکنالوجی کی بڑی تباہی ہے۔ اس سے لاکھوں انسانوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کو یوکرین سے نکالا جائے۔
یوکرینی حکام کے مطابق ڈیم کی تباہی کے بعد متعدد علاقے مکمل یا جزوی طور پر زیرِ آب آ چکے ہیں۔ جب کہ ان علاقوں سے شہریوں کے انخلا کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
واضح رہے کہ یوکرین کی فوج نے اتحادیوں سے ملنے والی جنگی ساز و سامان کی امداد کے بعد روسی فورسز پر جوابی حملے شروع کیے ہیں۔ اب تک ان حملوں کی شدت واضح نہیں ہے لیکن روس کو نقصان کا سامنا ہے۔
دوسری جانب روس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے یوکرین کی فوج کے مشرقی ڈونیٹسک میں کیے گئے ایک بڑے حملے کو ناکام بنا دیا ہے۔ اس دوران یوکرینی فورسز کے جانی نقصان کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔