کرونا وائرس کی چوتھی لہر جسے اومیکرون کا نام دیا گیا ہے، اس سے قبل کی جینیاتی اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلنے والی قسم ہے، تاہم تازہ ترین اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ اتنا مہلک نہیں ہے، جتنا کہ اس کے پھیلنےسے قبل خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے۔
اس ویریئنٹ کی ابتدا جنوبی افریقہ سے ہوئی ہے۔ وہاں اس سلسلے میں اکھٹے کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق یہ کرونا وائرس کی گزشتہ جینیاتی قسم ڈیلٹا کے مقابلے میں کم شدت کی بیماری کا سبب بنتا ہے۔ لیکن فائزر کی ویکسین اس کے پھیلاؤ کے خلاف نسبتاً کم مدافعت فراہم کرتی ہے، لیکن مرض کی شدت میں اضافے اور مریض کے اسپتال تک جانے کی نوبت کم آتی ہے ۔
اگرچہ منگل کو جاری کردہ نتائج ابتدائی نوعیت کے ہیں اور ان پر نظر ثانی نہیں کی گئی ہے, لیکن ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اومیکرون زیادہ تیزی اور زیادہ آسانی سے ایک سے دوسرے فرد کو منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تحقیق کے مطابق اومیکرون سے بچاؤ کے خلاف فائزر ویکسین صرف 33 فی صد تحفظ فراہم کرتی ہے، لیکن اسپتال جانے کا خطرہ 70 فی صد تک کم کر دیتی ہے۔ یہ اعداد و شمار جنوبی افریقہ کی سب سے بڑی پرائیویٹ ہیلتھ انشورنس کمپنی 'ڈسکوری ہیلتھ' نے فراہم کیے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ اعداد و شمار 15 نومبر سے 7 دسمبر کے دوران اکھٹے کیے گئے تھے۔ یہ وہ وقت ہے جس دوران اومیکرون کو پہلی بار جنوبی افریقہ اور بوتسوانا میں دیکھا گیا۔ صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں تبدیلی بھی آ سکتی ہے۔
جنوبی افریقہ کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس کمپنی 'ڈسکوری ہیلتھ 'کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر ریان نوچ کا کہنا ہے کہ صحت کے ماہرین کے مطابق جنوبی افریقہ میں رپورٹ ہونے والے تمام نئے انفیکشنز میں سے 90 فیصد سے زیادہ کا تعلق اومیکرون سے ہے۔
دنیا بھر کے ماہرین اس بارے میں فکرمند ہیں کہ اب جب کہ عالمگیر وائرس اپنے پھیلاؤ کے دوسرے سال میں ہے، ایسے میں اومیکرون کی آمد لوگوں کی مشکلات میں کس قدر اضافے کا موجب بن سکتی ہے۔ تاہم منگل ہی کو فائزر کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ اطمینان کا باعث ہے۔ اس رپورٹ میں کوویڈ-19 کے خلاف فائزر کی تیار کردہ دوا کے متعلق اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔
SEE ALSO: نیا وائرس کووڈ-19 سے زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہو سکتا ہے، ماہرینفائزر کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار 2250 افراد پر کیے گئے مطالعے پر مبنی ہیں جس کے مطابق اس کی دوا وبا میں مبتلا ہونے والے بالغ افراد کو اسپتال میں داخلے یا ہلاکت سے 89 فی صد تک محفوظ رکھتی ہے۔ یہ دوا ان لوگوں پر استعمال کی گئی جو اس وبا کے آسان ہدف ہیں اور وائرس ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
لیبارٹری ٹیسٹ سے پتہ چلا ہے کہ فائزر کی دوا اومیکرون کے خلاف بھی بہت مؤثر ہے۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو ہفتوں کےدوران اومیکرون میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یورنیورسٹی کے ڈیٹا میں بتایا گیا ہے کہ 29 نومبر کو نئے کیسز کی ہفتہ وار اوسط ایک لاکھ افراد میں تقریباً 8 نئے کیسز تھی۔ جب کہ 13 دسمبر کو یہ ہفتہ وار اوسط بڑھ کر ایک لاکھ افراد میں 34 سے زیادہ کیسز ہو گئی تھی۔ تاہم اس مدت کے دوران اموات کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا۔
ڈسکوری ہیلتھ کے سربراہ ڈاکٹر ریان نوچ کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کی چوتھی لہر اومیکرون، سابقہ لہروں کے مقابلے میں نمایاں طور پر تیز رفتار ہے اور اس لہر کے پہلے تین ہفتوں کے دوران نئے انفکشنز اور مثبت ٹیسٹوں کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جو انفکشن کے تیزی سے پھیلاؤ اور ایک فرد سے دوسرے فرد میں تیزی سے منتقلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جنوبی افریقہ میں اگرچہ اومیکرون میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن اسپتال میں داخلے کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مرض کی شدت کے لحاظ سے اومیکرون، اس سے پہلے کے ویریئنٹ ڈیلٹا کے مقابلے میں کم خطرناک ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2020 کے وسط کے مقابلے میں، جب ڈیلٹا پھیل رہا تھا، اب اسپتال میں وبا کی تشخیص کے ساتھ داخل ہونے والوں کی شرح 29 فی صد کم ہے۔
جنوبی افریقہ میں کیے گئے مطالعے کے مطابق فائزر ویکسین کی دو خوارکیں لگوانے والوں کو اومیکرون کے خلاف 33 فی صد تحفظ حاصل ہے، جب کہ اس سے قبل کے ویریئنٹ کے خلاف یہ ویکسین 80 فی صد تک تحفظ فراہم کرتی ہے۔
تاہم اس مطالعے سے یہ اطمینان بخش پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ فائزر ویکسین کا مکمل کورس اومیکرون کے مریضوں کو اسپتال میں داخلے سے 70 فی صد تک تحفظ فراہم کرتا ہے، جب کہ ڈیلٹا کے خلاف یہ تحفظ 93 فی صد تک تھا۔ 70 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں یہ تحفظ 60 فی صد کے لگ بھگ ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق فائزر کی بوسٹر خوراک کے بعد اومیکرون سے تحفظ میں 70 سے 75 فی صد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔
مطالعے سے یہ بھی پتہ چلاہے کہ جو افراد کووڈ-19 کے انفکشن میں مبتلا ہو چکے ہیں، انہیں اومیکرون ہونے کا خطرہ اس سے پہلے کی کرونا وائرس اقسام کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے۔
کرونا وائرس سے متعلق ایک اور رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس سال کرسمس ایک ایسے ماحول میں منایا جا رہا ہے جب کہ امریکہ میں عالمی وبا کے مختلف ویریئنٹ سے اموات کی مجموعی تعداد 8 لاکھ سے بڑھ چکی ہے اور اس وبا میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد پانچ کروڑ سے زیادہ ہو گئی ہے۔