رسائی کے لنکس

جو اقدامات کرونا کے ڈیلٹا ویریئنٹ کے خلاف کیے گئے، وہی اومکرون کے لیے مؤثر قرار


 ڈبلیو ایچ او کے حکام کا کچھ ممالک کی طرف سے سفری پابندیاں نافذ کیے جانے کے فیصلے کو باور کراتے ہوئے کہا گیا کہ ان پابندیوں سے نئے ویریئنٹ سے نمٹنے کے لیے وقت مل سکتا ہے۔ (فائل فوٹو)
ڈبلیو ایچ او کے حکام کا کچھ ممالک کی طرف سے سفری پابندیاں نافذ کیے جانے کے فیصلے کو باور کراتے ہوئے کہا گیا کہ ان پابندیوں سے نئے ویریئنٹ سے نمٹنے کے لیے وقت مل سکتا ہے۔ (فائل فوٹو)

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے ڈیلٹا ویریئنٹ سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے، وہی اقدامات کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے بھی کیے جانے چاہیئں، چاہے وہ نیا تشخیص کیے جانے والا اومکرون ویریئنٹ ہی کیوں نہ ہو۔

امریکی خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے حکام کا جمعے کو کچھ ممالک کی طرف سے سفری پابندیاں نافذ کیے جانے کے فیصلے کو باور کراتے ہوئے کہا گیا کہ ان پابندیوں سے نئے ویریئنٹ سے نمٹنے کے لیے وقت مل سکتا ہے۔

تین درجن ممالک میں اومکرون ویریئنٹ رپورٹ ہوا ہے جن میں بھارت بھی شامل ہے۔

جنوبی افریقہ کے علاوہ دیگر ممالک سے رپورٹ کیے جانے والے کیسز کی تعداد ابھی تک کم ہے جہاں سے کرونا کیسز میں مسلسل اضافہ رپورٹ کیا جا رہا ہے اور اومکرون ویریئنٹ کی تشخیص کی جا رہی ہے۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اومکرون ویریئنٹ زیادہ مہلک ہے جیسا کہ کچھ ماہرین صحت نے خبردار کیا تھا۔ اب بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کیا اس سے متاثرہ افراد کو شدید بیماری کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا یہ ویریئنٹ کرونا ویکسین کو ناکارہ بنا سکتا ہے۔

فلپائن سے صحافیوں سے ورچوئلی بات کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کے بحرالکاہل کے خطے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر تاکیشی کیسائی کا کہنا تھا کہ سرحدوں کی بندش کے سبب وائرس کی منتقل میں تاخیر ہو سکتی ہے اور کچھ وقت مل سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر ملک اور ہر برادری کو کیسز میں اضافے کے لیے یقینی طور پر تیار ہونا چاہیے۔

تاکیشی کا مزید کہنا تھا کہ ان کے پاس اومکرن سے متعلق جو معلومات اب تک موجود ہیں۔ ان کے مطابق انہیں اپنا لائحہ عمل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے خطے کے ایمر جنسی ڈائریکٹر ڈاکٹر بابو ٹنڈے کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسین لگانے کی طرف اقدامات جاری رہنے چاہیئں۔ سماجی دوری کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے اور دیگر احتیاطی تدابیر کے علاوہ فیس ماسک پہننا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ صحت کے نظام کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ وہ صحیح مریض کا صحیح جگہ پر اور صحیح وقت پر علاج کر رہے ہیں اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ انتہائی نگہداشت وارڈز میں بستر دستیاب ہوں۔ خاص طور پر ان کے لیے جنہیں ان کی ضرورت ہے۔

کسائی کا مزید کہنا تھا کہ سائنس دان اومکرون ویریئنٹ سے متعلق جاننے کے لیے کوشاں ہیں جس کو تشویش ناک قرار دیا گیا ہے اور جو ابتدائی معلومات کے مطابق دیگر ویریئنٹس کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG