نو مئی کے واقعات کے بعد تھری ایم پی او کے تحت عدالتوں سے رہائی کے احکامات کے بعد بھی نظر بندی کے آرڈرز جاری کرنے پر جب اسلام آباد میں ڈپٹی کمشنر عرفان میمن کے خلاف توہین عدالت کا کیس شروع ہوا تو یہ مقدمہ اسی دن سے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔
جمعے کو بالآخر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے چھ ماہ قید جب کہ ایس ایس پی آپریشنز کو چار ماہ قید کی سزا سنائی تاہم مختصر ہونے کے باعث سزا ایک ماہ کے لیے معطل کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈپٹی کمشنر کو ایک ماہ کے دوران اپیل دائر کرنے اور فیصلے کی کاپی وزیراعظم کو بھجوانے کی ہدایت بھی کی۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا جبکہ پولیس کے ایس پی فاروق بٹر کو عدالت نے کیس سے ڈسچارج کر دیا۔
ڈپٹی کمشنرنے فیصلہ کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل کردی ہے جس میں استدعا کی ہے کہ عدالت ایک رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے اور انہیں بری کرے۔
ایس ایس پی آپریشنز ملک جمیل ظفر نے بھی سنگل رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی ہے۔
اگرچہ اس معاملے پر قانون چارہ جوئی کا سلسلہ مزید جاری رہے گا لیکن ایک سینئر بیورکریٹ اور پولیس افسر کو عدالت سے سزا اور اس کا پس منظر پاکستان میں انتظامی اور عدالتی اختیار سے متعلق کئی اہم امور کا احاطہ کرتا ہے۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان میمن ماضی کے مقابلہ میں ایسے افسر ہیں جنہیں ایم پی او کے احکامات جاری کرنے اور ان پر عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کے الزام اور سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب ہوا کیسے؟
SEE ALSO: شہریار آفریدی کی گرفتاری کا معاملہ؛ ڈی سی اسلام آباد توہینِ عدالت کے مرتکب، چھ ماہ قید کا حکمنو مئی کے بعد ۔۔۔
گزشتہ برس نو مئی کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد واقعات اور ہنگامہ آرائی سے جہاں پاکستان کی سیاست میں بھونچال آیا وہیں پاکستان میں انتظامیہ اور پولیس کے کردار پر کئی اہم پہلو بحث کا موضوع بنے۔
نو مئی کے بعد انتظامیہ اور پولیس نے پاکستان تحریکِ انصاف کے سرکردہ رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور ایسے افراد جن پر شبہ تھا کہ وہ تشدد اور ہنگامہ آرائی میں ملوث ہوسکتے ہیں انہیں گرفتار کر کے ایم پی او کے احکامات کے مطابق تین تین ماہ کے لیے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر عرفان میمن نے نو مئی سے 2 نومبر 2023 کی درمیانی مدت میں تھری ایم پی او کے تحت نظر بندی کے 69 احکامات جاری کیے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس سلسلہ میں دو درجن سے زائد درخواستیں دائر ہوئیں۔ عدالت عالیہ کے 7 مختلف ججز نے ان ایم پی او آرڈرز کے خلاف درخواستیں سنیں۔
ڈپٹی کمشنر عرفان میمن نے 16 مئی کو شہریار آفریدی کے خلاف نظربندی کے احکامات جاری کیے لیکن 2 جون کو فرخ جمال آفریدی کیس میں یہ احکامات خارج کردیے گئے۔
اس کے باوجود عرفان میمن نظر بندی کے احکامات جاری کرتے رہے۔ جن افراد کے خلاف یہ آرڈر جاری کیے گئے ان میں اکثریت کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا۔
اس دوران شہریار آفریدی کو لگاتار جیل میں رکھا گیا اور ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ لوگوں کے جذبات بھڑکا کر انہیں تشدد پر مائل کررہے ہیں۔
اسلام آباد میں عدالت کی طرف سے ان کی ضمانت ہونے کے بعد ڈپٹی کمشنر راول پنڈی نے ان کے نظربندی کے آرڈر جاری کردیے۔
3 اگست 2023 کو لاہور ہائی کورٹ نے شہریار آفریدی کی نظربندی کے احکامات معطل کیے تو 4 اگست کو ڈپٹی کمشنر نے نظربندی کے نئے آرڈر جاری کردیے اور کہا کہ ان کے خلاف بہاولپور میں درج مقدمے گرفتاری مطلوب ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عدالت کی مداخلت پر آٹھ اگست کو ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے اپنے نئے احکامات واپس لے لیے تاہم اسی روز ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان میمن نے دوبارہ شہریار آفریدی کے نظربندی کے احکامات جاری کردیے اور اس میں وہی گراؤنڈز دی گئیں جو اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ مسترد کرکے انہیں ضمانت دے چکی تھی۔
ان نئے آرڈرز کے مطابق شہریار آفریدی اڈیالہ جیل راول پنڈی میں بیٹھ کر تشدد پھیلا رہے تھے جہاں وہ 16 مئی سے گرفتار تھے۔
عدالت نے ان تمام معاملات پر ڈی سی اسلام آباد اور راولپنڈی پر قانون کے ساتھ میوزیکل چئیر کی طرح کھیلنے کا کہا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے 15 اگست کو اس صورتحال پر نوٹس لیا اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفام میمن اور پولیس اہلکاروں کو نوٹس جاری کردیے۔ پولیس اور ڈی سی کو شوکاز نوٹس ہونے کے باوجود یکم ستمبر کو چوہدری پرویز الہی کے نظربندی کے احکامات جاری کردیے گئے جبکہ انہیں لاہور ہائیکورٹ نے آزاد کردیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالتی احکامات کو نظرانداز کرنے اور بار بار گرفتاریوں پر 6 ستمبر کو ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے 3 ایم پی او کے تحت آرڈر جاری کرنے کے اختیارات معطل کردیے۔ 29 دسمبر 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہریار آفریدی کی نظربندی کے احکامات خارج کردیے اور ڈی سی عرفان میمن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
توہین عدالت کی کارروائی کے دوران ڈپٹی کمشنر عرفان میمن نے عدالت سے غیرمشروط معافی بھی مانگی لیکن عدالت نے اس درخواست کو مسترد کردیا۔
21 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اسلام آباد کی توہینِ عدالت کیس میں غیر مشروط معافی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے عرفان نواز کو بیرون ملک جانے سے روکتے ہوئے کہا تھا کہ یکم مارچ کوفیصلہ سنایا جائے گا۔
تحریری فیصلے میں کیا کہا گیا ہے؟
عدالت کی طرف سے جاری کردہ تحریری فیصلے میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن کو 6 ماہ قید، ایک لاکھ روپے جرمانے جبکہ ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر کو 4 ماہ قید، ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایس ایچ او مارگلہ 2 ماہ قید، ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔ تینوں ملزمان اپنی سزا اڈیالہ جیل راولپنڈی میں کاٹیں گے۔ تینوں ملزمان کی سزا ایک ماہ تک معطل رہے گی تاکہ وہ فیصلے کیخلاف اپیل دائر کر سکیں۔
SEE ALSO: رپورٹر ڈائری: ’نواز شریف کئی برس بعد رکنِ اسمبلی بنے لیکن ان کے چہرے پر خوشی نہیں تھی‘فیصلے کے مطابق تینوں ملزمان سرکاری عہدوں پر فائز ہیں جن کی فوری معزولی سے کار سرکار میں خلل پیدا ہوگا۔ سزا معطلی سے حکومت کو اس فیصلے پر عملدرآمد کا معقول وقت بھی مل جائے گا۔ تینوں ملزمان پر عائد جرمانے کی رقم ان تمام افراد میں برابر تقسیم کی جائے جن کی مئی تا ستمبر نظر بندی کے احکامات جاری کیے جاتے رہے۔ یہ جرمانہ ان افراد کیلئے غیر قانونی نظر بندی کا ہرجانہ نہیں دے سکتے۔
تحریری فیصلے میں وزیراعظم سے ایم پی او آرڈرز پر تحقیقات کرانے کا حکم دیتے ہوئے استفسار کیا گیا ہے کہ کیا ایم پی او آرڈرز آئین، قانون اور عدالتی احکامات کے خلاف منظم انداز میں جاری کیے گئے؟ تحقیقات کرائیں کہ کیا ایم پی او آرڈر کسی غیر قانونی احکامات کی بنیاد پر جاری کیے گئے؟
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ اگر ایسا ہے تومناسب اقدامات کر کے یقینی بنائیں کہ ریاست کو منتخب عوامی نمائندوں کے ذریعے چلایا جائے۔ اس بات کی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ کیا ایم پی او کے تحت نظربندی احکامات کے لیے کوئی پالیسی موجود تھی۔ کیا ایم پی او آرڈرز کو شہریوں کے بنیادی حقوق کو پامال اور عدلیہ کے وقار کو مجروح کرنے کے لیے استعمال کیاگیا؟
ڈپٹی کمشنر کی اپیل میں سوالات
ڈی سی اسلام آباد نے توہین عدالت کیس میں سزا کے خلاف انٹراکورٹ اپیل دائر کردی ہے جس میں ڈی سی اسلام آباد نے سنگل بینچ فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کی ہے۔
اپیل میں ان کا کہنا ہے کہ مئی 2023 میں ایس ایس پی آپریشنز کی فراہم کردہ معلومات پر میٹننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت نظر بندی کے احکامات جاری کیے گئے۔ اس کے بعد راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے نظر بندی کے متعدد احکامات جاری ہوئے جس سے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کا کوئی تعلق نہ تھا، سنگل رکنی بینچ نے راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کے خلاف کوئی توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی۔
ڈپٹی کمشنر نے اپیل کی کہ 5 اگست 2023 کو عمران خان کی گرفتاری ہوئی، 8 اگست 2023 کو انٹیلی جنس بیورو، اسپیشل برانچ کی رپورٹ کی بنیاد پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے نظر بندی کے احکامات جاری کیے۔
ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ 8 اگست 2023 کے نظر بندی کے احکامات جاری کرنے پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ توہین عدالت کی مد میں فرد جرم عائد کی گئی، جس کے بعد عدالت کے سامنے تمام ریکارڈ رکھا گیا، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے عدالت کے روبرو اپنا تفصیلی بیان ریکارڈ کروایا۔
SEE ALSO: پاکستان کو ایسے سربراہ کی ضرورت ہے جو حکمت سے کام لے سکے: تجزیہ کاراپیل میں کہا گیا کہ انٹیلی جنس بیورو اور اسپیشل برانچ حکام نے بھی عدالت میں اپنی رپورٹ کے حوالے سے تائیدی بیان ریکارڈ کرایا تھا، تاہم عدالت نے تمام بیانات اور ریکارڈ کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دے دیا۔
اپیل میں ڈپٹی کمشنر عرفان میمن کی طرف سے سوالات اٹھائے گئے کہ کیا سنگل بینچ کا فیصلہ نظر بندی کے قانون سے مطابقت رکھتا ہے؟ کیا ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے رویے اور برتاؤ سے توہین عدالت کا تاثر سامنے آیا؟ کیا یہ پورا مقدمہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے؟
اپیل میں یہ سوال بھی شامل ہیں کہ کیا ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے سنگل رکنی بینچ کے 2 جون 2023 کی خلاف ورزی کی ہے؟ کیا آئی بی اور اسپیشل برانچ کی رپورٹ کی بنیاد پر نظر بندی کے احکامات جاری کرنا بلا جواز تھا؟
دائر کردہ اپیل میں کہا گیا کہ کیا سنگل رکنی بینچ نے توہین عدالت کا کیس ذاتی جذبات کی بنیاد پر چلایا اور جذباتی فیصلہ دیا؟ کیا سنگل بینچ نے میرٹ کے بجائے ذاتی احساسات اور جذبات کی بنیاد پر فیصلہ دیا؟
اپیل میں درخواست کی گئی ہے کہ عدالت سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو بری کرے۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان میمن کی اپیل کی سماعت کے لیے ڈویژن بینچ تشکیل دے دیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری سماعت کریں گے۔ ڈی سی اسلام آباد اور دیگر کی انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت 4 مارچ کو ہو گی۔