امریکہ کی ریاست ورجینیا میں ایک ہائی اسکول کی گریجویشن تقریب کے موقع پر فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوگئے ہیں۔
ورجینیا کے شہر رچمنڈ کے ایک تھِیٹر میں منگل کو گریجویشن تقریب ختم ہی ہوئی تھی کہ اچانک گولیاں چلنے کے بعدافراتفری مچ گئی اور والدین اپنے بچوں کے ساتھ روتے چلاتےہوئے ادھر ادھر بھاگتے رہے۔
اسکول بورڈ کے رکن جوناتھن ینگ نے مقامی ٹی وی کو بتایا کہ طلبہ اور ان کے ساتھ آنے والے مہمان تقریب کے اختتام پر عمارت سے باہر نکل رہے تھے کہ اس موقع پر انہوں نے کم از کم 20 گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔
پولیس نےموقع سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے ایک 19 سالہ مشتبہ نوجوان کو حراست میں لے لیا جس کی فوری طور پر شناخت نہیں ہو سکی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مشتبہ نوجوان پر سیکنڈ ڈگری قتل کے دو الزامات عائد کیے جائیں گے۔
رچمنڈ پولیس کے عبوری چیف رک ایڈورڈز نے رات کے وقت ایک نیوز کانفرنس میں دو ہلاکتوں کی تصدیق کی اور بتایا کہ ورجینیا کے دارالحکومت کے الٹریا تھیٹر کے باہر اور ملحقہ پارک میں فائرنگ سے متعدد افراد خمی ہو ئے۔
پولیس کے مطابق بھگدڑ کی وجہ سے کم از کم 12 دیگر زخمی ہوئےاور ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔
ایڈورڈز نے کہا، "جیسے ہی انہوں نے فائرنگ کی آواز سنی، ظاہر ہے کہ افراتفری مچ گئی۔ منرو پارک میں سینکڑوں لوگ تھے، لوگ ہر طرف بھاگے۔ جائے وقوع پرانتہائی افراتفری تھی۔"
رچمنڈ پولیس کے عبوری چیف رک ایڈورڈز نےمزید بتایا کہ مرنے والے دونوں مرد تھے، جن کی عمریں 18 اور 36 سال تھیں۔
فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کے نام جاری نہیں کیے گئے، تاہم پولیس کا خیال ہے کہ مشتبہ شخص کم از کم ایک مرنے والے کو جانتا تھا۔
پولیس نے جائے وقوعہ سے متعدد بندوقیں برآمد کی ہیں۔
پولیس نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ دو مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیاہے لیکن رچمنڈ پولیس کے عبوری چیف نے بتایا ہے کہ حراست میں لیے گئے دو افراد میں سے ایک کو واقعے میں ملوث نہیں پایا گیا۔
رچمنڈ کے میئر لیور اسٹونی نےعزم ظاہر کیا ہےشوٹنگ کے ذمہ دار افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
انہوں نے واقعے کو المناک اور تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بچوں کی بات ہے، یہ ان کی گریجویشن کادن تھا۔ ایسا کہیں بھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔
لیور اسٹونی کے مطابق "اس وقت میرے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ کیا اب کسی چیز کا تقدس باقی نہیں رہا؟ کیا اب کوئی چیز مقدس نہیں رہی؟"
2023 میں شوٹنگ کے واقعات میں اضافہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے واقعات میں جن عوامل کا عمل دخل ہے ان میں آتشیں اسلحہ کا فروغ، اسلحہ کے قوانین کی عدم موجودگی، کرونا وائرس کی وباء کے اثرات، سیاسی فضا میں با معنی انداز میں کسی تبدیلی سے گریز اور امریکی معاشرے میں تشدد کے عنصر میں اضافہ شامل ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں گن وائلنس کا کوئی جواز فراہم کرنا یا اس کی وجوہات کا بیان نہ تو اس سے متاثر ہونے والے خاندانوں کے لیے کسی مرہم کا باعث ہے نہ ہی دیگر امریکیوں کو کوئی اطمینان دلا سکتا ہے کیوں کہ ایسے المناک واقعات سبھی کو متاثر کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سال جو واقعات پیش آئے ہیں ان کی نوعیت کئی طرح کی ہے۔ گھریلو یا پڑوس کے جھگڑوں سے لے کر اسکولوں، ملازمت کے مقامات پر فائرنگ یا پبلک مقامات پر اندھا دھند گولیاں برسا دینے کے واقعات نے شہروں اور دیہات سب کو متاثر کیاہے جن میں کبھی تو لوگوں کو قاتل کا علم ہوا اور کبھی وہ اس کے بارے میں کچھ نہ جان سکے۔
فائرنگ میں 24 گھنٹے میں چار یا چار سے زیادہ لوگ مارے جائیں تو ایف بی آئی اسے قتلِ عام کا درجہ دیتا ہے۔
'گن وائلنس آرکائیو' کے مطابق جو اعدادوشمار جمع کرنے کے لیے نیوز میڈیا اور پولیس رپورٹس سے مدد لیتا ہے، بندوق کا استعمال اس سال جن 14000 لوگوں کی موت کا سبب بنا ان میں سے، نصف تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے خودکشی کی۔ اور ایسے واقعات تواتر سے ہوئے جن میں چار سے کم لوگ ہلاک ہوئے۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔