امریکہ کے صدارتی انتخابات میں اب تک سامنے آنے والے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کو اپنے ری پبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری حاصل ہے۔
اب تک امریکہ کی 50 میں سے 44 ریاستوں اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج آچکے ہیں۔ اب تک جو بائیڈن نے 253 الیکٹورل ووٹ حاصل کر لیے ہیں جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ 213 الیکٹورل ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ میں صدر کا انتخاب براہِ راست عوام کے ووٹ سے نہیں ہوتا۔ عوام الیکٹورل کالج کے ارکان کا انتخاب کرتے ہیں جو بعد ازاں صدر کو ووٹ ڈالتے ہیں۔
مروجہ انتخابی نظام کے تحت صدر کے انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج کے کل 538 ووٹ میں سے کم از کم 270 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ آئندہ چار برس کے لیے امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے لیے جو بائیڈن کو مزید 17 جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو 57 الیکٹورل ووٹ درکار ہیں۔
باقی ماندہ چھ ریاستوں میں سخت مقابلہ
جن چھ ریاستوں میں اب تک ووٹوں کی گنتی جاری ہے ان میں سے بھی کئی ریاستوں میں جو بائیڈن کا پلڑا بھاری نظر آ رہا ہے اور ان کے ووٹوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ووٹوں کی اب تک ہونے والی گنتی کے مطابق ریاست ایریزونا اور نیواڈا میں جو بائیڈن بہت معمولی فرق سے صدر ٹرمپ سے آگے ہیں۔ ریاست کے ایریزونا کے 11 جب کہ نیواڈا کے 6 الیکٹورل ووٹ ہیں اور اگر جو بائیڈن ان دو ریاستوں میں اپنی لیڈ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ صدر بننے کے لیے درکار 270 الیکٹورل ووٹ کے ہدف تک پہنچ جائیں گے۔
دوسری جانب الاسکا، پینسلوینیا، نارتھ کیرولائنا اور جارجیا میں صدر ٹرمپ کو بائیڈن پر برتری حاصل ہے۔ لیکن الاسکا کے علاوہ دیگر تینوں ریاستوں میں صدر ٹرمپ کی برتری کم ہو رہی ہے اور جو بائیڈن کے ووٹوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کو دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہونے کے لیے 57 الیکٹورل ووٹ درکار ہیں۔ قوی امکان ہے کہ الاسکا کے تینوں الیکٹورل ووٹ صدر کے نام رہیں گے۔
پینسلوینیا کے 20، نارتھ کیرولائنا کے 15 اور جارجیا کے 16 الیکٹورل ووٹ ہیں اور اگر ٹرمپ الاسکا کے ساتھ ساتھ یہ تینوں ریاستیں جیت بھی جاتے ہیں تو بھی انہیں تین مزید الیکٹورل ووٹ درکار ہوں گے۔ جس کا مطلب ہے کہ انہیں نیواڈا یا ایریزونا میں سے کوئی ایک ریاست بھی لازمی جیتنا ہوگی۔
اس وقت ان چھ ریاستوں میں ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی کی جا رہی ہے جن میں بعض رپورٹس اور تجزیہ کاروں کے مطابق جو بائیڈن کے ووٹوں کا تناسب زیادہ ہے۔
بائیڈن کہاں کہاں سے جیت رہے ہیں؟
بائیڈن نے اب تک جن ریاستوں میں کامیابی حاصل کی ہے اُن میں واشنگٹن، نیویارک، کیلی فورنیا، اوریگن، نیو میکسیکو، کولوراڈو، ہوائی، منی سوٹا، الی نوائے، ورمونٹ، نیو ہیمپشر، میسا جوسٹس، رہوڈ آئی لینڈ، کنیٹی کٹ، نیو جرسی، ڈیلاویئر، میری لینڈ، ورجینیا، مین، مشی گن اور وسکونسن شامل ہیں۔
دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے تین الیکٹورل ووٹ بھی جو بائیڈن کے نام رہے ہیں۔
ٹرمپ کا پلڑا کہاں بھاری ہے؟
دوسری جانب صدر ٹرمپ نے اب تک ٹیکساس، فلوریڈا، آئیووا، ساؤتھ کیرولائنا، الاباما، اوہایو، ویسٹ ورجینیا، انڈیانا، اوکلاہوما، میزوری، لوزیانا، کینٹکی، ٹینیسی، مسی سپی، آرکنسا، کنساس، ساؤتھ ڈکوٹا، نارتھ ڈکوٹا، وائیومنگ، مونٹانا، آئیڈاہو اور یوٹا میں کامیابی حاصل کی ہے۔
امریکہ کی 50 میں سے صرف دو ریاستیں – مین اور نیبراسکا – میں الیکٹورل ووٹس کی تقسیم کا قانون ہے۔ باقی تمام 48 ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی کے تمام کے تمام الیکٹورل ووٹ زیادہ پاپولر ووٹ لینے والے امیدوار کی جھولی میں جا گرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ریاست نیبراسکا میں الیکٹورل ووٹ کی کل تعداد پانچ ہے جس میں بائیڈن نے صرف ایک ووٹ حاصل کیا ہے جب کہ چار الیکٹورل ووٹ ٹرمپ کے پاس ہیں۔
اسی طرح ریاست مین کے چار میں سے تین الیکٹورل ووٹ بائیڈن حاصل کر چکے ہیں جب کہ ایک ڈسٹرکٹ کا ووٹ ٹرمپ کو ملنے کا امکان ہے۔