وفاق کے زیرِ انتظام سابقہ قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کو دو سال سے زائد عرصہ ہونے کے باوجود ان علاقوں میں حکومت کی عمل داری کمزور ہے۔
قبائلی علاقوں کے مکین ان اضلاع میں رائج کیے گئے سول نظام کی انتظامیہ اور عدلیہ سے مایوس ہونے کے بعد اب جائیداد اور خاندانی تنازعات کو روایتی جرگوں اور لشکروں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
رواں ماہ جنوبی وزیرستان، باجوڑ اور مہمند کے اضلاع میں خاندانی اور جائیدادوں کے تنازعات میں لشکروں کے ذریعے 30 کے قریب مکانوں کو مسمار کیا جا چکا ہے، جب کہ ان کے مکینوں کو علاقہ بدر کر دیا گیا ہے۔
مئی 2018 میں 25 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے آزادانہ اور خود مختار نظام کا خاتمہ ہوا تھا۔ اس ترمیم سے سات قبائلی ایجنسیاں اور چھ نیم خود مختار قبائلی علاقے باقاعدہ طور پر خیبر پختونخوا کا حصہ بن گئے تھے۔
مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی - ف) اور محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی حمایت کی تھی۔
مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی کا مؤقف تھا کہ خیبر پختونخوا میں انضمام کی بجائے تمام قبائلی علاقوں پر مشتمل ایک نیا صوبہ بنایا جائے جب کہ پختونخوا ملی پارٹی کے محمود خان اچکزئی کا مؤقف تھا کہ افغانستان کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی بھی قبائلی علاقوں کے نظام کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
اسی طرح مختلف قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے مبینہ مراعات یافتہ قبائلی رہنماؤں نے بھی قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی مخالفت کی تھی۔
انضمام کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومت نے ملک میں رائج سول انتظامی اور عدالتی نظام کو قبائلی اضلاع تک توسیع دے دی تھی۔ یہ عمل اب تقریباََ مکمل ہو چکا ہے۔
مختلف قبائلی اضلاع میں ایف سی آر ٹریبونل میں زیر التوا پانچ ہزار مقدمات کو پشار ہائی کورٹ اور ضلعی عدالتوں کو منتقل کر دیا گیا تھا۔ البتہ ان میں سے صرف ایک ہزار کے قریب مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ جب کہ دیگر مقدمات کو لوگوں نے مقامی جرگوں اور روایتی طریقوں سے حل کرنے کو ترجیح دیتے ہوئے عدالتوں سے واپس لیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سابق چیف سیکرٹری اور مختلف قبائلی علاقوں میں کئی ایک اہم عہدوں پر فرائض انجام دینے والے رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انضمام کے بعد لوگ تنگ آ چکے ہیں کیوں کہ اس انضمام سے ان کا پورا نظام متاثر ہوا ہے۔
ان کے بقول قبائلی عوام ملک میں رائج سول نظام کی خرابیوں سے آگاہ ہیں۔ ان کا پولیٹیکل اور خاصہ دار نظام اب پولیس اور سول انتظامیہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اُنہیں سول عدالتوں کی پیچیدگیوں کا علم ہے اور ان عدالتوں کے چکروں سے بھی وہ تنگ آ چکے ہیں۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے وکیل سجاد احمد مسعود کا کہنا ہے کہ دراصل انضمام کے بعد پولیس اور سول انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی جنگ جاری ہے۔ ماضی میں ایک ہی پولیٹیکل ایجنٹ کے زیرِ انتظام تمام ادارے تھے۔ مگر اب نہ صرف پولیس اور سول انتظامیہ بلکہ کئی دیگر سیکیورٹی اور انتظامی ادارے بھی میدان میں آ چکے ہیں۔ اسی وجہ سے لوگ روایتی قبائلی جرگوں اور لشکروں کے ذریعے اپنے تنازعات حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بعض قبائلی رہنما جو ان علاقوں کے صوبے میں انضمام کے خلاف تھے۔ اب سول انتظامیہ کی عمل داری میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انضمام کی حمایت کرنے والے قبائلی بالخصوص مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی حکومت کے ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کے وعدے پورے نہ ہونے پر حکومت سے ناراض دکھائی دیتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے وزیرِ قانون سلطان محمد خان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے ضلعی عدالتوں اور انتظامی دفاتر سمیت تمام تر سرکاری محکموں اور اداروں کو قبائلی اضلاع تک توسیع دے دی ہے۔
ان کے بقول ان علاقوں میں تمام ادارے کام کر رہے ہیں۔ مگر لوگ سول نظام سے واقف نہیں ہیں۔ اسی لیے اُنہیں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
ان کے مطابق رفتہ رفتہ تمام لوگ سول نظام سے آگاہ ہو جائیں گے۔ اور نہ صرف معاملات بلکہ ان تمام اضلاع میں ریاستی عمل داری بھی بحال ہو جائے گی۔
خیال رہے کہ انضمام کے وقت وفاقی حکومت نے تمام قبائلی اضلاع میں ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کے لیے 100 ارب روپے سالانہ مختص کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ مگر گزشتہ دو برسوں کے دوران قبائلی علاقوں میں سالانہ خرچ کی جانے والی رقم اب بھی 30 ارب روپے سے کم ہے اور اس رقم کا بھی زیادہ تر حصہ تنخواہوں اور دفتری معاملات پر خرچ کیا گیا ہے۔