پاکستان کے قبائلی اضلاع میں حالیہ دنوں میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ شمالی وزیرستان کے سب ڈویژن میر علی کے گاؤں خدی میں جمعرات کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے اسرار اللہ نامی ایک نوجوان کو قتل کر دیا۔
مقتول نوجوان 'یونیورسٹی آف لاہور' کا طالب علم تھا اور لاک ڈاؤن کے سبب تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے اپنے گاؤں آیا ہوا تھا۔
واقعہ کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے جب کہ علاقے میں سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔
شمالی وزیرستان میں دو روز کے دوران پیش آنے والی یہ دوسری واردات ہے۔
اس سے قبل 'سپین وام' تحصیل میں ایک سرکردہ قبائلی رہنما مسعود الرحمان کو رواں ہفتے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
شمالی وزیرستان کے ضلعی پولیس آفیسر شفیع اللہ گنڈا پور نے دونوں وارداتوں کی تصدیق کی ہے اور کہا کہ پولیس نے دونوں واقعات کے مقدمات درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
شمالی وزیرستان میں گزشتہ دو سالوں سے تشدد، دہشت گردی اور قتل کی وارداتیں تواتر سے ہو رہی ہیں جن میں سرکردہ قبائلی رہنماؤں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ سال تشدد، دہشت گردی اور گھات لگا کر قتل کے 51 واقعات پیش آئے تھے جب کہ رواں سال ابھی تک ایسے 12 واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ مگر کسی بھی واقعہ میں ملوث کوئی بھی ملزم ابھی تک گرفتار نہیں ہوا ہے۔
شمالی وزیرستان کے ایک سرکردہ قبائلی رہنما ملک خالد خان داؤڑ نے ان واقعات کے لیے سول انتظامیہ اور پولیس کو موردِ الزام ٹھیرایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں میں امن وامان قائم رکھنا سول انتظامیہ اور پولیس فورس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے پچھلے دو سالوں کے دوران قبائلی اضلاع میں سول انتظامیہ ابھی تک فعال نہیں ہوئی۔
ملک خالد خان داؤڑ کا شمار ان قبائلی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی نہ صرف حمایت کی تھی۔ مگر اب وہ مایوس دکھائی دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں جو توقعات تھیں، وہ اب پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔
شمالی وزیرستان کے علاوہ دیگر قبائلی اضلاع میں بھی تشدد اور دہشت گردی کے واقعات تواتر سے پیش آتے رہتے ہیں۔
باجوڑ میں رواں سال تشدد کے نو بڑے واقعات میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ شمالی وزیرستان سے ملحقہ جنوبی وزیرستان میں مبینہ طور پر سابق عسکریت پسند جنگجوؤں پر مشتمل امن کمیٹی کو احتیارات دینے پر بھی تنازع ہے۔
حکومت کے وفادار سمجھے جانے والے قبائلی جرگے نے ایک روز قبل امن کمیٹی کو حاصل شدہ احتیارات کی مخالفت کرنے پر قوم پرست جماعت 'عوامی نیشنل پارٹی' کے مقامی رہنما ایاز وزیر کا گھر مسمارکرنے کا حکم دیا تھا۔
اس فیصلے پر عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے نام نہاد امن کمیٹی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اُنہوں نے واضح کیا ہے کہ تمام تر مالی اور جانی نقصان کی ذمہ داری حکومت اور مقامی انتظامیہ پر عائد ہو گی۔
ایمل ولی خان کے اس ردعمل کے بعد اب جنوبی وزیرستان میں حالات کشیدہ ہیں اور ضلعی ڈپٹی کمشنر نے حالات پر قابو پانے کے لیے ایاز وزیر کے خلاف جرگہ کے فیصلے کو معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔
جنوبی وزیرستان میں امن کمیٹی اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنماؤں اور کارکنوں کے درمیان محاذ آرائی پچھلے دو سالوں سے جاری ہے۔
مئی کے دوسرے ہفتے میں رکنِ قومی اسمبلی علی وزیر کے چچا زاد بھائی عارف وزیر پر حملہ اور اُنہیں قتل کرنے کا مقدمہ بھی امن کمیٹی کے مسلح کمانڈروں کے خلاف درج ہے۔ مگر ابھی تک اس مقدمے میں نامزد کسی بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔