سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے آبکاری پالیسی میں مبینہ بدعنوانی کے الزام میں دہلی کے نائب وزیرِ اعلیٰ منیش سسودیا کو گرفتار کر لیا ہے۔گرفتاری سے قبل سی بی آئی اہلکاروں نے ان سے آٹھ گھنٹے تک پوچھ گچھ کی۔
سی بی آئی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سسودیا کو انسدادِ بدعنوانی قانون کی دفعہ سات اور تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کے تحت اتوار کو گرفتار کیا گیا ہے۔
سی بی آئی کا یہ بھی کہنا ہے کہ منیش سسودیا کے سامنے بہت سے سوالات رکھے گئے تھے، جن کا انہوں نے اطمینان بخش جواب نہیں دیا۔ وہ تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہے تھے۔
تحقیقاتی ادارے کے مطابق مذکورہ اسکینڈل میں ان کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی پیش کیے گئے۔
سسودیا دہلی میں برسرِ اقتدار عام آدمی پارٹی کی حکومت کے دوسرے وزیر ہیں جنہیں گرفتار کیا گیا ہے۔
انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے گزشتہ سال مئی میں وزیرِ صحت ستیندر جین کو فرضی کمپنی بنانے اور منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ وہ اس وقت سے تہاڑ جیل میں قید ہیں۔
منیش سسودیا دہلی حکومت اور عام آدمی پارٹی میں وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال کے بعد دوسری اہم ترین شخصیت ہیں۔ وہ نائب وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ ساتھ وزیرِ صحت اور لگ بھگ 18 اہم محکموں کے انچارج ہیں۔ دہلی حکومت میں مجموعی طور پر 33 محکمے ہیں۔
ان کی گرفتاری کے خلاف عام آدمی پارٹی نے پیر کو ملک کے مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے۔ اس موقعے پر پولیس کی جانب سے سخت حفاظتی انتظام کیا گیا۔
سسودیا کی گرفتاری کے خلاف جب اتوار کو عام آدمی پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے سی بی آئی کے ہیڈ کوارٹرز کے سامنے احتجاج کیا، تو کم از کم 50افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔
حراست میں لیے گئے افراد میں ارکانِ پارلیمان سنجے سنگھ اور روہت کمار مہرولیہ کے ساتھ ساتھ تین دیگر ارکان اسمبلی اور ایک سابق رکن اسمبلی بھی شامل ہیں۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے سسودیا کی گرفتاری کو ’گندی سیاست‘ کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بے قصور ہیں۔
ان کے بقول گرفتاری کے خلاف عوام میں شدید ناراضگی ہے، وہ اس کا جواب دیں گے۔ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سی بی آئی نے سیاسی مخالفت کی وجہ سے انہیں گرفتار کیا ہے۔
عام آدمی پارٹی کا کہنا ہے کہ بی جے پی کیجری وال اور سسودیا کی مقبولیت سے خائف ہے جس کی وجہ سے یہ کارروائی کی گئی ہے۔
دوسری جانب بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے الزام عائد کیا کہ دہلی حکومت اسکولوں اور عبادت گاہوں کے پاس شراب کی دکانیں کھولنا چاہتی تھی تاکہ وہ کرپشن کرکے پیسہ بنا سکے۔
بی جے پی کا کہنا ہے کہ اگر سسودیا بے قصور ہیں، تو انہیں قانون کا سامنا کرنے میں ڈر کیوں ہے۔
دہلی حکومت نے گزشتہ برس آبکاری پالیسی میں ترمیم کرکے شراب کی دکانوں کو حکومت کے کنٹرول سے آزاد کر دیا تھا اور شراب کا کاروبار کرنے والوں کو آزادانہ طور پر شراب کی دکانیں کھولنے کی اجازت دے دی تھی۔
دہلی کے چیف سیکریٹری نے اس فیصلے کے خلاف دہلی کے لیفٹننٹ گورنر (ایل جی) کو ایک رپورٹ ارسال کی تھی، جس میں انہوں نے بدعنوانی کا الزام لگایا تھا۔
اس کے بعد لیفٹننٹ گورنر نے مرکزی وزارتِ داخلہ کو ارسال کردہ اپنی رپورٹ میں اس معاملے کی تحقیقات کی درخواست کی تھی۔
ان اقدامات کے بعد دہلی حکومت نے آبکاری پالیسی میں ترمیم کو منسوخ کر دیا تھا اور سابقہ پالیسی بحال کر دی گئی تھی۔
اس دوران بی جے پی کی جانب سے نائب وزیرِ اعلیٰ منیش سسودیا اور حکومت پر بدعنوانی کا الزام عائد کیا جاتا رہا۔
بی جے پی کا کہنا تھا کہ عام آدمی پارٹی کی حکومت نے شراب کا کاروبار کرنے والوں سے پیسے لے کر پالیسی میں ترمیم کی تھی۔
دریں اثنا سی بی آئی اور ای ڈی نے اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔ سی بی آئی نے سسودیا کے گھر اور دہلی کے 21 مقامات پر چھاپے مارے۔ ان چھاپوں کی بنیاد پر سی بی آئی اور ای ڈی نے کئی افراد کو گرفتار کیا۔
سی بی آئی نے 14 جنوری کو سسودیا کی رہائش گاہ کا دورہ کیا اور چھان بین کی۔ سسودیا نے اسے سی بی آئی کا چھاپہ قرار دیا تھا۔ اس سے قبل سی بی آئی نے ان سے پوچھ گچھ کی تھی۔
سی بی آئی نے 19 فروری کو سسودیا کو پھر پوچھ گچھ کے لیے بلایا جس پر انہوں نے ایک ہفتے کی مہلت مانگی تھی۔ انہوں نے 26 فروری کو سی بی آئی کے دفتر جا کر پوچھ گچھ میں حصہ لیا اور اسی دن انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
مبصرین عام آدمی پارٹی کے اس الزام کی تائید کرتے ہیں کہ سیاسی مخاصمت کی وجہ سے یہ کارروائی کی گئی ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر سسودیا بدعنوانی میں ملوث نہیں ہیں تو انھیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
سینئر تجزیہ کار شیتل سنگھ کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارت کی سیاست ہی ایسی ہو گئی ہے کہ جو حکومت میں ہے وہ اپنے مخالفین کے خلاف کارروائی کرتا ہے اور اپنے لوگوں کو بچاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کے متعدد رہنماؤں پر بھی بدعنوانی کے الزامات ہیں لیکن سرکاری ادارے ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسری جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کو بدعنوانی کی چھوٹ ملنی چاہیے۔
شیتل سنگھ کے خیال میں عام آدمی پارٹی پر بدعنوانی کے جو الزامات لگائے جا رہے ہیں وہ غلط نہیں ہیں۔ جو گرفتاریاں ہوئی ہیں وہ بھی درست ہیں۔ تاہم ان کے مطابق سسودیا نے اس معاملے میں رشوت لی ہو، اس کا امکان کم ہے۔ کیوں کہ وہ ایک ایمان دار سیاست دان کے طور پر مشہور ہیں۔
مرکزی حکومت میں سیکریٹری کے عہدے پر رہنے والے سابق آئی اے ایس وجے شنکر پانڈے کا کہنا ہے کہ آبکاری محکمہ حکومتوں کے لیے کمائی کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور تمام حکومتیں اس سے ناجائز کمائی کرتی ہیں۔
انھوں نے ایک یو ٹیوب چینل پر ہونے والی بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی پوری مشینری اس قسم کی بدعنوانیوں میں ملوث رہتی ہے۔
ان کے خیال میں دہلی حکومت پر جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ درست ہیں۔
لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ کارروائی پوری طرح سیاسی ہے اور اس سے عام آدمی پارٹی کو نقصان پہنچے گا۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر منیش سسودیا یہ اعلان کر دیتے کہ وہ بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں تو کیا اس وقت بھی ان کے خلاف کارروائی ہوتی اور انہیں گرفتار کیا جاتا۔
حزب اختلاف کی جماعتوں ترنمول کانگریس، راشٹریہ جنتا دل، بھارت راشٹریہ سمیتی اور سماج وادی پارٹی نے سسودیا کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔
کانگریس کے ایک سینئر رہنما ابھیشیک منو سنگھوی نے بھی گرفتاری کی مذمت کی ہے تاہم دہلی کانگریس کے صدر نے گرفتاری کا خیرمقدم کیا ہے۔
واضح رہے کہ 12-2011 میں ’انڈیا اگینسٹ کرپشن‘ نامی تحریک شروع ہوئی تھی جس کی قیادت سماجی کارکن انا ہزارے کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ اروند کیجری وال بھی تھے جو آئی آر ایس کی سرکاری ملازمت سے مستعفی ہو کر اس میں شامل ہوئے تھے۔
تحریک کی کامیابی کے بعد کیجری وال نے سیاسی جماعت بنانے کا خیال ظاہر کیا جسے انا ہزارے نے مسترد کر دیا تھا۔ اس کے بعد کیجری وال نے ان سے الگ ہو کر دو اکتوبر 2012 کو عام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھی۔
انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ حکومت کرنے نہیں بلکہ ملک کی سیاست کو ایک نئی سمت دینے آئے ہیں تاکہ صاف ستھری سیاست کا دور واپس آئے۔
ملک کے بہت سے دانش ور ان کے ساتھ آگئے تھے لیکن جب کیجری وال نے انتخابی سیاست میں قدم رکھا تو ان کی پالیسیوں سے متنفر ہو کر بہت سے لوگ رفتہ رفتہ الگ ہو گئے۔
متعدد مبصرین کا کہنا ہے کہ کیجری وال بھی اسی سیاست میں رنگ گئے ہیں جس کی مخالفت کے ساتھ وہ ابھرے تھے۔ کیجری وال نے وزیرِ اعظم بننے کے عزائم کو بھی کبھی نہیں چھپایا۔
بہرحال اس وقت عام آدمی پارٹی کی حکومت دہلی اور پنجاب میں ہے۔ اسے گجرات کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں اچھے ووٹ ملے تھے اور اب وہ قومی پارٹی بنتی جا رہی ہے۔
کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو عام آدمی پارٹی کی مقبولیت سے خطرہ محسوس ہوتا ہے اس لیے اس کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔