سانحہ آرمی پبلک اسکول کے متاثرین نے مطالبہ کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف، سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو بھی عدالتی کمیشن میں طلب کیا جائے۔
واقعے کی تحقیقات کے لیے گزشتہ سال پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تھا، جس نے حال ہی میں 135 افراد کے بیانات قلمبند کیے ہیں۔
یاد رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں 132 طلبہ سمیت 141 افراد ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
عدالتی کمیشن کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ بچوں کے والدین نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا پرویز خٹک کو طلب کر کے ان سے پوچھ گچھ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاندانوں نے کمیشن کی مجموعی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
دہشت گردی کے اس اندوہناک واقعے کے بعد ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین نے انصاف کے حصول کے لیے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔
تنظیم میں شامل شاہانہ اجوان خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ انہوں نے کمیشن کے سربراہ کو درخواست دی ہے جس میں نواز شریف، چوہدری نثار اور پرویز خٹک کو شامل تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ان کے بقول "یہ لوگ اہم عہدوں پر فائز تھے۔ لہذٰا، انہیں تحقیقات میں شامل کیے بغیر یہ کام مکمل نہیں ہو سکتا۔"
ان کا کہنا تھا کہ "ہمارے بچوں کو بیدردی سے قتل کیا گیا۔ ہم انہیں کبھی نہیں بھول سکتے۔ انہیں انصاف دلوانے کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔"
تنظیم کے ایک رکن فضل خان ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ والدین نے عدالتی کمیشن سے ہر ممکن تعاون کیا ہے۔ دکھ اور صدمے کی کیفیت سے دوچار ان والدین نے کمیشن سے بھرپور تعاون کیا ہے۔ تاہم، ہم چاہتے ہیں کہ ہر اس شخص کو طلب کیا جائے جو اس وقت اعلٰی حکومتی عہدے پر فائز تھا۔
فضل خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے عدالتی کمیشن کو تین ماہ میں سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن، اب ایک سال ہونے کو ہے۔ تاہم، وہ پرامید ہیں کہ انہیں انصاف ضرور ملے گا۔
عدالتی کمیشن کب بنا تھا؟
ساںحہ آرمی پبلک اسکول کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن گزشتہ سال اکتوبر میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے حکم پر تشکیل دیا گیا تھا۔ کمیشن تشکیل دینے کے لیے واقعے میں ہلاک ہونے والے طلبا اور اساتذہ کے لواحقین نے عدالت میں درخواست دائر کر رکھی تھی۔
حکومت کے خلاف احتجاج اور عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کے مطالبے پر لواحقین میں اختلاف رائے تھا۔ تاہم، سپریم کورٹ کی ہدایت پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیے جانے کے فیصلے کے بعد ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین نے رضاکارانہ طور پر اپنے بیانات قلمبند کروائے تھے۔
سپریم کورٹ نے 19 اکتوبر 2018 کو پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد ابراہیم خان کو عدالتی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی تھی۔ کمیشن نے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، اسکول ملازمین سمیت سیکورٹی اداروں کے نمائندوں کے بھی بیانات قلم بند کر لیے ہیں۔
کن افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے؟
عدالتی کمیشن کے ترجمان کے مطابق، دوران تحقیقات سانحے کے وقت پشاور میں اعلٰی فوجی عہدوں پر فائز افسران کو بھی طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے 11 فروری 2019 کو وزارت دفاع کو خط لکھا گیا، جس کے بعد اس دوران اہم عہدوں پر فائز فوجی افسران نے بھی اپنے بیانات قلمبند کروائے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ کمیشن نے اب تک 135 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں۔ جن میں سابق کور کمانڈر پشاور لیفٹینینٹ جنرل(ریٹائرڈ) ہدایت الرحمان، ڈائریکٹر جنرل فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن(ایف ڈبلیو او) میجر جنرل انعام حیدر ملک، آرمی میڈیکل کور کے بریگیڈیئر مدثر اعظم اور بریگیڈیئر عبدالنعیم بھی شامل ہیں۔
میجر جنرل انعام حیدر واقعے کے وقت بریگیڈیئر تھے اور سانحے کی ابتدائی تحقیقاتی ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔
فوجی حکام کے علاوہ خیبر پختونخوا انتظامیہ کے اعلٰی عہدوں پر فائز افسران نے بھی اپنے بیانات ریکارڈ کروائے ہیں۔ ان میں سابق انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درانی، سابق سیکرٹری داخلہ اختر علی شاہ، انسداد دہشت گردی پولیس کے سربراہ اعظم خان شنواری بھی شامل ہیں۔
سانحے کے بعد پاکستان کے اہم فیصلے
سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور فوجی قیادت کے مشترکہ اجلاس کے بعد اہم نوعیت کے فیصلے کیے تھے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اس حملے کے بعد کہا تھا کہ اب اچھے اور برے طالبان کی بجائے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے گی۔
پاکستان نے سزائے موت پر عمل درآمد شروع کرتے ہوئے مختلف مجرموں کو پھانسی دینے کا عمل بھی شروع کر دیا تھا۔ جب کہ پاکستان کے پارلیمان نے فوجی عدالتوں کے قیام کی بھی منظوری دے دی تھی۔
فوجی عدالتوں کے ذریعے دہشت گردی کے الزامات ثابت ہونے پر 57 مجرموں کو پھانسی دی گئی جب کہ آرمی پبلک اسکول کے مبینہ سہولت کاروں میں سے چند کو بھی تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
کچھ عرصہ قبل پاکستانی حکام کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کے انٹرویو کو نشر کرنے پر اے پی ایس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
لواحقین نے مطالبہ کیا تھا کہ ایسے لوگوں کو ٹی وی پر دکھانے کی بجائے پھانسی دے دینی چاہیے۔
سانحے میں ہلاک ہونے والے بچوں اور اساتذہ کے عزیز و اقارب وقتاً فوقتاً اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے ایک تنظیم کی بھی بنیاد رکھی تھی جو بعد ازاں اختلافات کا شکار ہو گئی تھی۔
والدین کا مطالبہ تھا کہ واقعے کی شفاف تحقیقات کروا کر اس گھناؤنے واقعے میں ملوث افراد کو کڑی سزا دی جائے۔ عدالتی کمیشن کے قیام کا لواحقین نے خیرمقدم کیا تھا۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ اس کی سفارشات پر کتنا عمل ہوتا ہے۔