پشاور کے انتہائی حساس علاقے میں واقع آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کو چار سال مکمل ہو گئے ہیں مگر ابھی تک اس واقعے کے متاثرین انصاف کے منتظر ہیں۔
چار سال قبل 16 دسمبر 2014ء کو کیے جانے والے اس حملے میں 134 طلبہ سمیت ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ہلاک بچوں کے والدین کی مسلسل جدوجہد کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے متاثرہ والدین کی درخواست پر اس سانحے کے تحقیقات کے لیے پشاور ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل کمیشن بھی قائم کیا ہے جو امکان ہے کہ آئندہ چند روز میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے حوالے کردے گا۔
لیکن متاثرہ والدین کی تنظیم کے رکن فضل خان ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ انہیں اس کمیشن سے کوئی امید نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فضل خان کا کہنا تھا کہ کمیشن ایک جونیئر جج پر مشتمل ہے جس کے پاس ان کے بقول اس سانحے کے اصل ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
مگر ایک اور متاثرہ والد اجون خان عدالتی کمیشن کی کارروائی سے مطمئن ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پہلی بار سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس سانحے کا نوٹس لیا ہے۔
اجون خان کا کہنا ہے کہ چار سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کے زخم ابھی تک تازہ ہیں اور وہ انصاف ملنے کے منتظر ہیں۔
خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیرِ اطلاعات شوکت علی یوسفزئی کہتے ہیں کہ آرمی پبلک اسکول کا واقعہ پاکستان کے خلاف عالمی سازش تھا جسے ان کے بقول لوگوں نے ناکام بنا دیا ہے۔
اس دہشت گرد حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان سے علیحدہ ہونے والے دھڑے جماعت الاحرار نے اپنے ترجمان احسان اللہ احسان کے ذریعے قبول کی تھی۔
قاری احسان نے اپریل 2017ء میں خود کو سکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا تھا اور وہ تاحال حکام کی قید میں ہے۔
لیکن متاثرہ والدین اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما قاری احسان اللہ احسان کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو تاحال حکومت نے تسلیم نہیں کیا ہے۔