امریکہ کے ایک وفاقی جج نے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے شہری حقوق پامال کرنے کے الزام میں جمعرات کو سابق پولیس اہلکار ڈیرک شاون کو 21 برس قید کی سزا سنائی ہے۔
جج نے کہاہے کہ جو کچھ منی ایپلس میں پولیس افسرنے کیا وہ غلط اور جارحانہ اقدام تھا۔
فیصلے میں امریکی ڈسٹرکٹ جج پاؤل میگنیوسن نے شاون کے 25 مئی 2020 کے اقدامات پر سخت تنقید کی۔
واضح رہے کہ 25 مئی 2020کو ریاست منی سوٹا کے شہر منی ایپلس میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت اس وقت ہوئی تھی، جب سفید فام پولیس افسر شاون نے فلائیڈ کو حراست میں لینے کے بعد 9 منٹ تک ان کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھا تھا۔
گزشتہ برس جون میں منی ایپلس کی ایک عدالت نے جارج فلائیڈ کے قتل کے الزام میں ڈیرک شاون کو ساڑھے 22 سال قید کی سزا سنائی تھی اور اب نئی سزا ملنے کے بعد وہ بیک وقت دونوں سزائیں کاٹیں گے۔
جج میگنیوسن نے جمعرات کو اپنے فیصلے میں ڈیرک شاون کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ، ''میں واقعی نہیں جانتا کہ تم نے جو کیا وہ کیوں کیا؟ کسی شخص کی گردن پر تب تک گھٹنا رکھنا، کہ اس کی موت واقع ہوجائے غلط ہے۔ تمہارا عمل غلط اور جارحانہ تھا۔''
SEE ALSO: امریکہ:جارج فلائیڈ کی دوسری برسی پر پولیس اصلاحات کا نیا حکم نامہ جاریمیگنیوسن اس سے پہلے اس کیس سے جڑے تین دیگر افسران کے خلاف مقدمے میں بھی جج تھے۔ انہوں نے اس واقعے کا اکیلا ذمہ دار شاون کو ٹھہرایا۔
اس واقعے کے وقت سب سے سینئر افسر شاون تھے۔ انہوں نے جائے وقوعہ پر موجود ایک اور اہلکار کو ڈیرک کے حوالے کرنے سے بھی گریز کیا تھا۔
اپنے فیصلے میں میگنیوسن نے لکھا کہ''تم نے اس واقعے کی کمانڈ لیتے ہوئے تین دیگر نوجوان افسروں کی بھی زندگیاں تباہ کیں۔''
واضح رہے کہ جارج فلائیڈ کو حراست میں لینے کے بعد 9 منٹ تک ان کی گردن پر گھٹنا رکھنے کے واقعے کی ویڈیو ارد گرد کھڑے شہریوں نے سوشل میڈیا پر ڈال دی تھی۔جس کے بعد امریکہ کے کئی شہروں اور دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
SEE ALSO: فلائیڈ قتل کیس میں پولیس اہلکار کو ساڑھے بائیس سال قید کی سزاڈیرک شاون اور ان کے دیگر ساتھیوں کو محکمۂ پولیس نے اس واقعے کے بعد ملازمت سے برخاست کردیا تھا۔
بعد ازاں منی ایپلس کی جیوری نے اپریل 2020 میں جارج فلائیڈ کے قتل کے الزام میں شاون کو مجرم قرار دیا تھا جب کہ مئی میں ایک وفاقی جیوری نے جارج فلائیڈ کے قتل کے جرم میں منی ایپلس کے چار سابقہ پولیس افسران کے خلاف فرد جرم عائد کی تھی۔
اس خبر کے لیےبعض مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔