پاکستان اور امریکہ کے درمیان حالیہ چند ہفتوں کے دوران ہونے والے اعلیٰ سطح کےرابطوں کو مبصرین اسلام آباد اور واشنگٹن کے باہمی تعلقات کے لیے مفید قرار دے رہے ہیں جو پاکستان کی سابق حکومت کے دور میں بظاہر سردمہری کا شکار رہے تھے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور ان کے امریکی ہم منصب اینٹی بلنکن نے بدھ کو ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے باہمی تجارتی تعلقات کو فروغ دینے سمیت مختلف امور پر تبادلۂ خیال کیا تھا جب کہ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان کا امریکی ہم منصب جان کیری سے بھی رابطہ ہوا ہے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے نمائندۂ خصوصی برائے تجارتی و کاروباری امور دلاور سید بھی پاکستان کے دورے پر ہیں اور وہ تاجروں سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔
امریکہ، پاکستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور امریکہ کے لیے پاکستان کی سالانہ برآمدات لگ بھگ چھ ارب ڈالر سے زیادہ ہے لیکن پاکستان کے کاروباری حلقوں کو توقع ہے کہ امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے تجارتی و کاروباری امور کے دورے سے پاکستان اور امریکہ کے تجارتی تعلقات مزید بہتر ہوں گے ۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورِ حکومت میں امریکہ کے ساتھ ان رابطوں کو تجزیہ کار دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی جانب اشارہ قرار دے رہے ہیں۔
بین الااقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کہتے ہیں کہ امریکی حکام سے حالیہ رابطے اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ پاکستان اور امریکہ اپنے باہمی تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے بقول امریکہ پاکستان کے ساتھ نہ صرف باہمی تجارتی تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے بلکہ وہ افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر انسداد ہشت گردی اور بعض دیگر معاملات پر پاکستان کے تعاون کا خواہش مند بھی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نجم رفیق نے کہا کہ شہباز شریف حکومت امریکہ کے ساتھ اپنے سفارتی روابط کو مزید تقویت دینا چاہتی ہے جو عمران خان دور میں کمزورہو گئے تھے۔
یاد رہے کہ رواں برس اپریل میں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی طرف سے پیش کرہ ہ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔ تاہم عمران خان کا اصرار تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے کے پیچھے مبینہ طور پر امریکہ کا ہاتھ ہے لیکن امریکہ کی طرف سے عمران خان کے اس الزام کی متعد بار تردید کی جا چکی ہے۔
تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ بعض اوقات سیاسی مصلحتوں کے لیے ایسا بیانیہ اختیار کیا جاتا ہےاور اگر یہ بیانیہ بغیر کسی شواہد کے ہو تو وہ صرف سیاسی بیان رہ جاتا ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
سفارتی حلقوں کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی طرف سے امریکہ مخالف بیانیہ دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کے لیے کسی طور پر مفید نہیں۔
ماضی میں پاکستان اور امریکہ کے نہایت قریبی اور اسٹرٹیجک تعلقات رہے ہیں لیکن بعض مبصرین کی رائے ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے باہمی تعلقات کو استوار رکھنا دونوں ملکوں کے باہمی مفادات کے لیے نہایت اہم ہے۔
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کو بہتر کرنے کے امکانات کے ساتھ ساتھ ان تعلقات کو نئی جہت میں استوار کرنا اسلام آباد اور واشنگٹن دونوں کی ضروررت ہے۔
'امریکہ کے ساتھ فعال تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہے'
شمشاد احمد خان گزشتہ چند سالوں میں دونوں ملکوں کے درمیان بعض معاملات پر پید ا ہونے والی غلط فہمیوں کی وجہ پائیدار سفارتی رابطو ں کی کمی کو قرار دیتے ہیں ۔
انہوں نے حالیہ باہمی رابطوں کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے دو طرفہ دوروں کی بھی ضرورت ہو گی تاکہ دونوں ممالک منظم انداز اور بامقصد انداز میں باہمی مفادات کے لیے تعلقات کو بہتر کر سکیں۔
تجزیہ کار نجم رفیق کہتے ہیں کہ پاکستان کو درپیش اقتصادی مسائل کے پیش نظر بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ خوش گوار اور فعال تعلقات رکھنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔
ان کے بقول افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلاکے بعد بھی امریکہ کو انسدادِ دہشت گردی کے لیے پاکستان کا تعاون درکار ہو گا۔
یاد رے کہ حالیہ سالوں میں خطے میں بھارت امریکہ کے اسٹرٹیجک تعلقات نہایت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کے بعض حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کئی شعبوں میں فعال تعلقات برقرار رکھ سکتے ہیں۔