پاکستان میں جمعرات کے روز ایک ایسے وقت قومی انتخابات ہو رہے ہیں جب گزشتہ قومی انتخابات کے فاتح، جیل میں قید مقبول سابق وزیر اعظم عمران خان، ،اس کے باوجود شہ سرخیوں پر چھائے ہوئے ہیں کہ جوہری طور پر مسلح اس ملک کو ایک اقتصادی بحران اور دوسرے مسائل کاخطرہ درپیش ہے۔
خبررساں ادارے رائٹرز نے پاکستان کے انتخابات پر اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے انتخابی مہم کے دوران رہنماؤں نے ملک کو درپیش حقیقی مسائل کے حل پر کم ہی بات کی ہے۔
جنوبی ایشیا کا 241 ملین آبادی پر مشتمل یہ ملک کئی عشروں کی بلند افراط زر اور ایک ایسی معیشت سے دوچار ہے جو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) کے ایک سخت بیل آؤٹ پروگرام پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے شدیددشواریوں کی شکار ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس ملک میں اسلام پسند عسکریت پسندی عروج پر ہے اور تین پڑوسی ملکوں، بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ لیکن یہ معاملات اس انتخابی میدان سے زیادہ تر غائب رہے ہیں۔
امریکہ کے لیے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے، جو اس وقت واشنگٹن کے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں اسکالر ہیں، کہا، "اس انتخابی دور میں مسائل پر بہت کم بحث ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی مہم رہی ہے جس میں شخصیات چھائی رہی ہیں۔"
سیاست میں فوج کا کردار
پاکستان میں فوج بے پناہ طاقت کی حامل ہے لیکن اس کا موقف ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرتی۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جنرلز 2018 کے گزشتہ انتخابات میں خان کو ترجیح دینے کے بعد اس بار شریف کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
دونوں سابق وزرائے اعظم کا کہنا ہے کہ انہیں فوج کی ایما پر نکالا گیا تھا، جس کی فوج تردید کرتی ہے۔
حقانی نے کہا کہ،“ یہ نشانہ بننے والوں (شکار) کا ٹکراؤ لگتا ہے، نواز شریف کو 2017 میں نشانہ بنایا گیا تھا اور اس کے بعد عمران خان شکار بننے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔"
SEE ALSO: پاکستان الیکشن: بیرون ملک تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟چیلنجز اور ممکنہ ہنگ یا معلق پارلیمنٹ
ان تمام مسائل کے درمیان بیشتر تجزیہ کار انتخابات کے بعد ایک ہنگ یا معلق پارلیمنٹ کی پیش گوئی کر رہے ہیں یعنی ایسی پارلیمنٹ جس میں کسی واحد پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہو گی جس کے نتیجے میں مخلوط حکومت کی تشکیل ضروری ہو گی۔
اس کا مطلب ہے کہ آنے والی انتظامیہ کی فیصلہ سازی ایک ایسے وقت میں متاثر ہو گی جب بہت سے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے تیز اور فیصلہ کن پالیسی سازی درکار ہو گی۔
ان میں سرفہرست معیشت ہے۔ آئی ایم ایف کے قلیل مدتی بیل آوٹ کی مدت مارچ میں ختم ہو رہی ہے اور آنے والی حکومت کو ایک نئے توسیعی پروگرام پرمزاکرات کی ضرورت ہو گی ۔ لیکن انتخابی حریفوں نے اس کے بارے میں بہت کم بات کی ہے۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف سے مذاکرات: ’اگلی حکومت کو سب باتیں تسلیم کرنی ہوں گی‘پاکستان کے انگریزی زبان کے اخبار ڈان نے ایک اداریے میں کہا ہے،"اقتدار کے تین بڑے امیدواروں نے اپنے اپنے انتخابی منشور میں جو معاشی پروگرام پیش کیے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی کے پاس بھی مشکل اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کوئی قابل عمل مختصر سے طویل مدتی حکمت عملی موجود نہیں ہے۔"
واشنگٹن میں قائم، یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں جنوبی ایشیا کی سیکیورٹی کے امور کے ایک سینئر ماہر، اسفند یار میر نے کہا کہ نہ تو خان اور نہ ہی شریف کے امیدواروں نے افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں دوبارہ بڑھنے والے تشدد کے بارے میں بات کی ہے۔ ایران اور بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگیاں بھی غائب رہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ "کسی بھی سیاسی جماعت نے مستحکم خارجہ اور سیکیورٹی پالیسی موقف پیش نہیں کیا ہے۔"
SEE ALSO: بلوچستان کے دو اضلاع میں دھماکے، 30 افراد ہلاک،داعش نے ذمہ داری قبول کر لیالیکشن میں ووٹروں کی کم شرکت کا ایک بڑا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے جس سے انتخابات کی ساکھ مزید متاثر ہو سکتی ہے۔
واشنگٹن میں قائم ،ایڈوائزری فرم ایشیا گروپ سے وابستہ عزیر یونس نے کہا، "ملک بھر میں موجودہ ماحول اور جبر کے سلسلے کے پیش نظر، ممکن ہے کہ بہت سے لوگ گھر سے باہر آنے اور اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کی زحمت ہی نہ کریں۔"
انہوں نے کہا، " بلا شبہ، یہ ایک ایسے ملک کے لیے ایک خوفناک نتیجہ ہو گا جو جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔"
اہم پارٹیاں
شریف کی پارٹی نے منگل کو انتخابی مہم ختم ہونے سے چند گھنٹے قبل بڑے بڑے اخباروں کے مکمل صفحہ اول پر اشتہارات شائع کروائے جن میں انہیں ،وزیر اعظم قرار دیا گیا۔
انتخابی میدان کے ایک اور مدمقابل بلاول بھٹو زرداری ہیں جو سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر آصف زرداری کے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے پیر کو جنوبی شہر کراچی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر شہر نے ان کی پارٹی کو ووٹ دیا تو یہ ان کے وزیراعظم بننے کی گارنٹی ہے۔
لیکن جیل میں ہونے اور قانونی مقدمات سے اپنی پارٹی کے تباہ ہونے کے باوجود، عمران خان اور ان کے امیدوار، جو آزاد پلیٹ فارمز سے انتخاب لڑ رہے ہیں، بدستور ایک طاقت ہیں۔
جیل میں قید عمران خان کے لاکھوں حامی اس کے باوجود، جسے وہ خان اور ان کی پارٹی کے خلاف فوجی حمایت یافتہ کریک ڈاؤن کہتے ہیں، ان کے پیچھے ریلی نکالنے کے خواہاں ہیں۔
یہ رپورٹ رائٹرز کے متن پر مبنی ہے۔