پاکستان میں 8 فروری کو عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ جن کے بارے میں اب سے چند روز پہلے تک شکوک و شبہات پائے جاتے تھے کہ ہوں گے بھی یا نہیں۔ ماضی کے انتخابات کی تاریخ کے تناظر میں سیاسی امور کے ماہرین ان انتخابات، ان کے نتائج اور ان کے اثرات کے بارے میں مختلف انداز فکر رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر ہما بقائی ایک ممتاز سینئر تجزیہ کار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں اب تک ایسے کوئی انتخابات نہیں ہو سکے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ وہ غیر متنازعہ تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو دکھائی دیتا ہے کہ ہمیشہ انتخابات ایک حد تک انجینیئرڈ ہوئے ہیں۔ لیکن اس بار تو صورت حال ہی مختلف ہے۔ یہ انتخابات 2018 سے زیادہ متنازعہ ہیں۔ اس وقت صرف ایک امیدوار کو نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ لیکن اس بار تو پوری ایک جماعت ہی نا اہل قرار پائی ہے۔
سپریم کورٹ نے پاکستان الیکشن کمشن کی درخواست قبول کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی جماعت میں الیکشن کرانے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے بطور پارٹی اپنے انتخابی نشان پر پارلیمانی الیکشن لڑنے کی اہل نہیں رہی۔
اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی نے جن ارکان کو ٹکٹ جاری کیے تھے، وہ آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
سن 2018 کے پارلیمانی انتخابات میں سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر نواز شریف کو پارٹی کی صدارت سے نااہل قرار دے دیا تھا جس کے بعد الیکشن کمشن نے سینیٹ کے انتخابات میں نواز شریف کی جانب سے اپنی پارٹی کے امیدواروں کو جاری کردہ ٹکٹ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور انہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا تھا، جو تقریباً وہی صورت حال تھی جس کا سامنا اب پاکستان تحریک انصاف کو ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی نے کا کہنا تھا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ ووٹرز ٹرن آؤٹ کیسا رہتا ہے۔ کیا وہ ماضی کے ریکارڈ توڑ سکے گا۔ اگر عمران خان کے نامزد آزاد امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوتے ہیں تو ان کا مجموعی طور پر رویہ کیسا رہتا ہے اور بنیادی طور انہی کے رویے پر پارلیمنٹ اور ملکی سیاست کے مستقبل کا کسی حد تک تعین ہو سکے گا۔
انتخابی قوانین کے تحت آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے ارکان اسمبلی کے پاس کسی پارٹی میں شامل ہونے کے لیے تین دن کا وقت ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کی بحثیت پارٹی رجسٹریشن منسوخ ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے ارکان اسمبلی پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہو سکیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں ہما بقائی نے کہا کہ جہاں تک انہوں نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کا مشاہدہ کیا ہے وہ اسی نتیجے پر پہنچی ہیں کہ شاید ان انتخابات کی کوئی ساکھ نہ بن پائے۔
ان کے خیال میں 8 فروری کو ڈالے جانے والے ووٹوں کو مختلف کٹیگریز میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جیسے ہمدردی کا ووٹ، خاموش ووٹ، نئے ووٹ، غصے کا ووٹ اور اسٹبلشمنٹ مخالف ووٹ وغیرہ۔
سلمان عابد ایک ممتاز صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ ان کا خیال بھی یہ ہی ہے کہ پاکستان میں اب تک ایسے کوئی انتخابات نہیں ہوئے ہیں جنہیں غیر متنازعہ کہا جا سکتا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ 1970 اور اس کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے ان کے بارے میں سوالات ہی سوالات ہیں اور ان سب انتخابات کے بارے میں پہلے ہی سے طے کر لیا جاتا تھا کہ کس کو نکالنا ہے، کس کو لانا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ سے قطع نظر اب جو انتخابات ہو رہے ہیں وہ تو ماضی سے بھی بدتر ہیں اور جس طریقے سے یہ انتخاب کرایا جا رہا وہ ہونے سے پہلے ہی متنازعہ ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت بنے گی اس پر ان تمام باتوں کا بوجھ بھی آئے گا جو اس انتخاب کی عدم شفافیت کے حوالے سے مختلف حلقوں میں کی جا رہی ہیں۔
جب کہ پاکستان الیکشن کمشن اور نگران حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے انتخابات کو منصفانہ اور شفاف رکھنے کے لیے غیر معمولی انتظامات کیے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں سلمان عابد نے کہا کہ آثار یہ ہیں کہ اس انتخاب کے نتیجے میں شاید کوئی بھی پارٹی اکثریت حاصل نہ کر سکے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک کمزور سے اتحاد کی حکومت بنے گی جسے بین الاقوامی سطح پر وہ پذیرائی نہیں مل سکے گی جو ملک میں سرمایہ کاری لانے اور معاشی استحکام پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ماضی کی طرح اس بار بھی ہارس ٹریڈنگ کے امکانات ہیں کیونکہ آزاد امیدواروں کو، جن میں سے بھاری تعداد پی ٹی آئی کے امیدواروں کی ہے، خریدنے کی یقیننا کوششیں کی جائیں گی۔
سجاد میر، پاکستان کے ایک اور ممتاز صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اب تک ہونے والا کوئی انتخاب شک شبہے سے بالا تر نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ 1970 کے انتخابات کے بارے میں جس کے بعد پاکستان دو لخت ہوا، کہا جاتا ہے کہ غیر جانبدارانہ اور شفاف تھے جب کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے اور اس وقت کے مشرقی پاکستان میں انتخاب کے نتائج پہلے سے طے شدہ تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ 9 مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کو سزا دینے کے لیے بروقت مقدمات چلائے جاتے اور پھر ہر پارٹی کو انتخاب میں حصہ لینے دیا جاتا۔
وہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے بعد ہارس ٹریڈنگ تو رہی ایک طرف، آزاد امیدواروں کو احکامات دیے جائیں گے کہ کس کو کس جگہ کس پارٹی میں جانا ہو گا۔ جب کہ فوج کا کہنا ہے کہ وہ الیکشن کے معاملے میں قطعی طور پر غیر جانب دار ہے اور وہ الیکشن کو محفوظ بنانے کے لیے الیکشن کمشن کو ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔
فورم