ایک امریکی طالب علم جسے شمالی کوریا نے ’’ملک دشمن‘‘ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر حراست میں لے لیا تھا اس کے متعلق اس کے ساتھی سیاحوں کا کہنا ہے کہ وہ ’’ایک عام سیاح‘‘ تھا۔
شمالی کوریا نے جمعے کو اعلان کیا تھا کہ اس نے یونیورسٹی آف ورجینیا کے طالب علم اوٹو وارم بائیر کو ’’معاندانہ‘‘ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے باعث حراست میں لے لیا اور اس سلسلے میں تحقیقات کر رہا ہے۔ تاہم شمالی کوریا نے ان سرگرمیوں کی کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔
21 سالہ اوٹو چین کی ینگ پائنیئر ٹورز کمپنی کے ساتھ ایک سیاح کی حیثیت سے پیانگ یانگ داخل ہوا تھا جو غیر ملکیوں کو دنیا سے کٹے اس ملک کی سیر کے لیے لے جاتی ہے۔
ینگ پائنیئرز سے تعلق رکھنے والی ٹور لیڈر شارلٹ گٹرج نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ وارم بائیر کو ایئرپورٹ پر اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ چین واپس جانے کے لیے جہاز میں بیٹھنے کے لیے تیار تھا۔
شارلٹ نے کہا کہ بظاہر اسے پیانگ یانگ کے ینگاکڈو انٹرنیشنل ہوٹل میں ہونے والے ایک واقعے پر حراست میں لیا گیا، مگر انہوں نے اس واقعے کی نوعیت کے بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔
’’پورے دورے میں اوٹو کا رویہ ایک عام سیاح جیسا تھا، وہ تصاویر لے رہا تھا، لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ہمیں ایئر پورٹ پہنچنے تک اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کوئی گڑبڑ ہے۔‘‘
سرکاری خبررساں ادارے کورین سنٹرل نیوز ایجنسی کی طرف سے شائع کیے گئے ایک بیان میں شمالی کوریا کے حکام نے اس بات کا اشارہ دیا کہ کی وارم بائیر امریکی حکومت کی مدد سے یا اس کے لیے کام کر رہا تھا۔
شمالی کوریا نے اس دعوے کے کوئی شواہد فراہم نہیں کیے تاہم ماضی میں بھی شمالی کوریا امریکیوں اور دیگر غیر ملکی شہریوں پر جھوٹے الزامات عائد کرتا رہا ہے۔
حراست میں لیے گئے افراد کو اکثر جلدبازی میں سنے گئے مقدمات میں قصورواز ٹھہرایا جاتا ہے اور انہیں کبھی کبھی قید بامشقت سنائی جاتی ہے۔ مگر عموماً بعد میں انہیں رہا کر دیا جاتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا حراست میں لیے گئے افراد کو مغربی ممالک کے ساتھ سودے بازی کے لیے استعمال کرتا ہے۔