عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے جو خطرنات ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق اس مرض پر متوازن خوراک ، باقاعدگی سے ورزش اور اپنے وزن پر کنٹرول رکھ کر قابو پانا ممکن ہے۔
پریسٹون سوانسن ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریض ہیں۔ وہ اپنے خون میں شکر کی مقدار کم کرنے کے لیے ادویات استعمال کرتے رہے ہیں اور ورزش نہیں کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے خون ٕمیں کولیسٹرول اور شکر کی مقدار اور اس کے ساتھ ساتھ میرے بلڈ پریشر میں بھی اضافہ ہورہاتھا۔
عالمی ذیابیطس فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ دنیا میں ذیابیطس کے دو کروڑ 85 لاکھ مریض ہیں، جن میں زیادہ تر بھارت اور چین میں ہیں۔ ذیابیطس کا ٹائپ ون اس وقت ہوتا ہے جب انسانی جسم میں انسولین کی مقدار کم ہو جاتی ہے ۔ جبکہ ٹائپ ٹو اس وقت ہوتا ہے جب انسانی جسم اپنے اندر بننے والی انسولین کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کر سکتا۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ 90 فیصد مریض ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہوتے ہیں اور وزن کی زیادتی اور سستی کے باعث ان کی صحت کے لیے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
دوسرے مریضوں کی طرح پریسٹن بھی ان حالات سے گذررہے تھے جب انھوں نے ڈاکٹر تموتھی چرچ کی ایک تحقیق میں حصہ لیا۔ اس تحقیق میں ڈاکٹر ٹموتھی ناور ان کی ٹیم نے ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ایسے 260 مریضوں پر تحقیق کی جو باقاعدگی سے ورزش نہیں کرتے تھے اور ان کے خون میں شکر کی مقدار بھی بڑھ رہی تھی۔
ڈاکٹر چرچ نے مریضوں کو ورزش کے لحاظ سے تین ٕمختلف گروپس میں تقسیم کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ وزن اٹھانے کی ورزش اور چلنے پھرنے سے خون میں شکر کی مقدار میں تھوڑی بہت کمی دیکھی گئی لیکن ایروبکس اور مخصوص ورزش سے خون مین شکر کی مقدار میں بہت زیادہ کمی ہوئی۔
ڈاکٹر چرچ کا کہنا ہے کہ ورزش اور ایروبکس کرنے والے مریضوں کا وزن بھی کم ہوا اور اس سے ان کے پٹھے بھی متاثر نہیں ہوئے۔ ان کے مطابق پٹھے ذیابیطس کے مریضوں میں خون میں شکر کی مقدار کم کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
9 مہینے کی اس تحقیق میں یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ مخصوص ورزش کرنے والے مریضوں نے ادویات کا استعمال بھی کم کردیا۔
پریسٹون سوانسن کہتے ہیں کہ ایک ہفتے میں 140 منٹ کی ورزش نے ان کی زندگی بدل دی ۔