سیاروں کا یہ نگینہ ہمارے کرہ ٴارض سے دوگنہ ’ریڈئیس‘ والا ہے، جسے دریافت کرنے والی ٹیم امریکی اور فرانسیسی سائنس دانوں پر مشتمل ہے
سائنس دانوں نے نظام شمسی سے بہت دور ایک سیارہ دریافت کیا ہے جو دراصل ایک اصل ہیرے کی جھلک پیش کرتا ہے۔
سیاروں کا یہ نگینہ ہمارے کرہ ٴارض سے دوگنہ ’ریڈئیس‘ پر محیط ہے، جسے دریافت کرنے والی ٹیم امریکی اور فرانسیسی سائنس دانوں پر مشتمل ہے۔ اِس سیارے کی سطح پر گریفائیٹ (سنگ سرمہ) اور ڈائمنڈ (الماس) کی چادر چڑھی ہوئی معلوم دیتی ہے۔
محققین کے اندازوں کے مطابق نئے سیارے کی سطح کے ایک تہائی حصے پر ہیرے کی تہہ چڑھی ہوئی ہے۔
قیمتی پھتر والا یہ سیارہ ’55 Cancri e’ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کی چوڑائی زمین سے دوگنا اور جسامت آٹھ گنا بڑی ہے، اور اس طرح یہ ایکSuper Earthکا روپ رکھتا ہے۔
یہ اُن پانچ سیاروں میں سے ایک ہے جو ’55 Cancri’ کے مدار میں گردش کرتے ہیں، جب کہ ’کینسری‘ سورج کی طرح کا ایک ستارہ ہے جو کرہٴ ارض سے تقریباً 40نوری سال کی دوری پر واقع ہے۔
یہ سیارہ Constellation of Cancerمیں واقع ہےجس کے بارے میں سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ستارے کو کھلی آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے۔
ایسے میں جب یہ سیارہ اپنے ستارے کی گرد گھوم رہا تھا، گذشتہ برس ماہرین ِفلکیات کی پہلی بار اِس پر نظر پڑی، جس سے یہ بھی ممکن ہوا کہ اُس کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکے۔
اِنہی اطلاعات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اِس کی اصل ماہئیت کا اندازہ لگایا گیا جِس کے لیے محققین نے کمپیوٹر ماڈلنگ کا استعمال کرتے ہوئے سیارے کی کیمیائی ساخت کے بارے میں تخمینہ لگایا۔
اِس سے قبل ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ میزبان ستارے Cancri 55میں آکسیجن سے کاربن کی مقدار کہیں زیادہ ہے، جب کہ امریکی اور فرانسیسی ٹیم نے اِس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس سیارے کی تشکیل کے مرحلے کے وقت کاربن اور سلیکون کاربائیڈ کی زیادہ مقدار تھی، جب کہ اِس میں پانی اور برف کی مقدار نہ ہونے کے برابر تھی۔
ابتدائی طور پر ماہرین ِفلکیات کا خیال تھا کہ ’ڈائمنڈ پلانیٹ‘ کی کیمیائی ترکیب اُسی طرح کی ہے جس طرح کہ زمین کی ہے اور یہ کہ Cancrie 55میں اُبلتے ہوئے پانی کی مقدار کافی زیادہ معلوم دیتی ہے۔
تاہم، ’ییل یونیورسٹی‘ کے محقق، نِکو مادھو سدھن کا کہنا ہے کہ نئی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ سیارے پر پانی نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ یہ بنیادی طور پر کاربن، یعنی گریفائیٹ اور ہیرے کے ساتھ ساتھ لوہے، سلیکون کاربائیڈ اور ممکنہ طور پر سلیکیٹس سے بنا ہوا ہے۔
اِس سے یہ بھی پتا چلتاہے کہ نظام شمسی میں قیمتی پتھر سے بنے مزید سیارے بھی موجود ہو سکتے ہیں، جنھیں تلاش کیا جانا ابھی باقی ہے۔
سیاروں کا یہ نگینہ ہمارے کرہ ٴارض سے دوگنہ ’ریڈئیس‘ پر محیط ہے، جسے دریافت کرنے والی ٹیم امریکی اور فرانسیسی سائنس دانوں پر مشتمل ہے۔ اِس سیارے کی سطح پر گریفائیٹ (سنگ سرمہ) اور ڈائمنڈ (الماس) کی چادر چڑھی ہوئی معلوم دیتی ہے۔
محققین کے اندازوں کے مطابق نئے سیارے کی سطح کے ایک تہائی حصے پر ہیرے کی تہہ چڑھی ہوئی ہے۔
قیمتی پھتر والا یہ سیارہ ’55 Cancri e’ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کی چوڑائی زمین سے دوگنا اور جسامت آٹھ گنا بڑی ہے، اور اس طرح یہ ایکSuper Earthکا روپ رکھتا ہے۔
یہ اُن پانچ سیاروں میں سے ایک ہے جو ’55 Cancri’ کے مدار میں گردش کرتے ہیں، جب کہ ’کینسری‘ سورج کی طرح کا ایک ستارہ ہے جو کرہٴ ارض سے تقریباً 40نوری سال کی دوری پر واقع ہے۔
یہ سیارہ Constellation of Cancerمیں واقع ہےجس کے بارے میں سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ستارے کو کھلی آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے۔
ایسے میں جب یہ سیارہ اپنے ستارے کی گرد گھوم رہا تھا، گذشتہ برس ماہرین ِفلکیات کی پہلی بار اِس پر نظر پڑی، جس سے یہ بھی ممکن ہوا کہ اُس کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکے۔
اِنہی اطلاعات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اِس کی اصل ماہئیت کا اندازہ لگایا گیا جِس کے لیے محققین نے کمپیوٹر ماڈلنگ کا استعمال کرتے ہوئے سیارے کی کیمیائی ساخت کے بارے میں تخمینہ لگایا۔
اِس سے قبل ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ میزبان ستارے Cancri 55میں آکسیجن سے کاربن کی مقدار کہیں زیادہ ہے، جب کہ امریکی اور فرانسیسی ٹیم نے اِس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس سیارے کی تشکیل کے مرحلے کے وقت کاربن اور سلیکون کاربائیڈ کی زیادہ مقدار تھی، جب کہ اِس میں پانی اور برف کی مقدار نہ ہونے کے برابر تھی۔
ابتدائی طور پر ماہرین ِفلکیات کا خیال تھا کہ ’ڈائمنڈ پلانیٹ‘ کی کیمیائی ترکیب اُسی طرح کی ہے جس طرح کہ زمین کی ہے اور یہ کہ Cancrie 55میں اُبلتے ہوئے پانی کی مقدار کافی زیادہ معلوم دیتی ہے۔
تاہم، ’ییل یونیورسٹی‘ کے محقق، نِکو مادھو سدھن کا کہنا ہے کہ نئی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ سیارے پر پانی نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ یہ بنیادی طور پر کاربن، یعنی گریفائیٹ اور ہیرے کے ساتھ ساتھ لوہے، سلیکون کاربائیڈ اور ممکنہ طور پر سلیکیٹس سے بنا ہوا ہے۔
اِس سے یہ بھی پتا چلتاہے کہ نظام شمسی میں قیمتی پتھر سے بنے مزید سیارے بھی موجود ہو سکتے ہیں، جنھیں تلاش کیا جانا ابھی باقی ہے۔