چین کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر خدشات کیوں بڑھ رہے ہیں؟

بیجنگ میں ایک شخص ڈیجیٹل سٹور پر

فائیو جی انفراسٹرکچر سے لے کر موبائل فونز تک، چینی ٹیکنالوجیز کا دنیا کے کئی حصوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ یہ چین کے ڈیجیٹل سلک روڈ پروگرام کا حصہ ہے، جس پر ملا جلا رد عمل ہے ۔ کچھ ممالک اس کا خیرمقدم کرتے ہیں ، جب کہ دوسرے چینی ٹیکنالوجی کے استعمال کے ممکنہ خطرات کی جانچ کر رہے ہیں ۔

فون سے لے کر کمپیوٹر تک، دنیا کے بہت سے حصوں میں جو چیز لوگوں کو رابطے میں رکھتی ہے وہ چینی ٹیکنالوجی ہے۔چین ،ٹیکنالوجی کی اپنی اس عالمی کوشش کو ڈیجیٹل سلک روڈ کا نام دیتا ہے۔ 2015 میں شروع کیے جانے والے اس پروگرام کو ، چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ٹیکنالوجی کا حصہ قرار دیتا ہے جو سمندر کی تہہ سے خلا تک پھیلا ہو اہے ۔

جرمنی کے پاس چینی ٹیکنالوجی ہے لیکن وہ چینی فائیو جی آلات پر پابندی لگانے پر غور کر رہا ہے۔ جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان میکسی ملین کال کہتے ہیں کہ ممکنہ حفاظتی خطرات کے لیے یہ سخت جانچ پڑتال اب ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورکس میں موجودہ اجزاء پر بھی لاگو ہوتی ہے، اور یہ کہ اگلے چند مہینوں میں ان موجودہ اجزاء کی بھی تنقیدی جانچ کی جائے گی۔

برلن میں چینی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ وہ جرمنی کے اقدامات پر الجھن میں ہے اور انتہائی غیر مطمئن ہے۔

امریکہ میں، چینی ٹیکنالوجی پر سخت پابندیاں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں شروع ہوئیں، جنہوں نے اس پر قومی سلامتی کے خدشات کا اظہار کیا ۔

برطانیہ میں، وا وے ٹیکنالوجی کو 2027 کے آخر تک فائیو جی نیٹ ورکس سے ہٹا دیا جائے گا ۔2020 میں برطانوی فیصلے پر چین نےاس طرح اپنا ردعمل ظاہر کیا تھا ۔

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چو ینگ کا کہنا تھا برطانیہ، امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے ، بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے، ایسے خطرات کو جواز بنا رہا ہے جو سرے سے موجود ہی نہیں ہیں اور چینی کاروباری اداروں کے خلاف امتیازی سلوک کر رہا ہے اور جبر اً انہیں بے دخل کر رہاہے۔

ڈیجیٹل آلات کی چینی کمپنی واوے کی کئی مصنوعات پر کئی مغربی ملکوں میں پابندی لگ چکی ہے۔ فائل فوٹو

ایک چینی سیکیورٹی ماہر. مییا نووینز کہتی ہیں کہ کچھ مغربی ممالک میں سیکیورٹی کے ان خدشات نے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے کہ بیجنگ ، چینی ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن انفراسٹرکچر پر کنٹرول کے ساتھ جاسوسی کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے گا ۔

لیکن دوسری جانب جنوب مشرقی ایشیا سے افریقہ تک کے ممالک نے اسے ڈیجیٹل رابطے تک رسائی کے لیے ایک سستا ذریعہ قرار دیتے ہوئے چین کی اس پیشکش کا خیرمقدم کیا ہے۔

میا نووینز کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں افریقہ میں بحث تھوڑی مختلف ہے کیونکہ وہ ایسی ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہے ، جہاں زیادہ زور سیکیورٹی خدشات پر نہیں ، بلکہ اس بات پر ہے کہ چینی کمپنیاں ان ممالک کو اپنی ڈیجیٹل معیشتوں کو ترقی دینے میں کس طرح مدد دے سکتی ہیں۔

مالیاتی خطروں کے موضوع کے ماہر رابرٹ گرین کہتے ہیں کہ چین کے علاوہ متعدد ممالک فون جیسے تکنیکی آلات مہیا کرتے ہیں لیکن ڈیجیٹل میدان کا ایک شعبہ ایسا ہے جہاں امریکہ اور چین اہم کھلاڑی ہیں۔

کلاؤڈ سروسز اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ ایک بہت بڑا شعبہ ہے جس پر توجہ ضروری ہے۔

اگرچہ ممالک کے درمیان جغرافیائی سیاسی سطح پر مقابلہ ہو سکتا ہے، تجزیہ کاروں کے مطابق یہ صارفین کو بھی متاثر کرتا ہے ۔اس وسیع تر جغرافیائی سیاسی سیاق و سباق کی سمجھ اوسط صارف کے لیے واقعی اہم ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ ضروری نہیں کہ ہم کسی اور حکومت کے ساتھ معاملہ کر رہے ہیں جو ہماری حکومت ہی کی طرح کام کرتی ہے۔

میا نووینس کا کہنا ہے کہ کسی بھی ٹیکنالوجی کے معاملے میں ، صارفین کو سوچنا چاہیے کہ جو ٹیکنالوجی وہ استعمال کرتے ہیں اس پر وہ کتنا اعتماد کرتے ہیں اور ان خطرات کو ذہن میں رکھنا چاہئے جو اس ٹیکنالوجی سے ہو سکتے ہیں کہ کون ان کے ذاتی ڈیٹا کو محفوظ کر رہا ہے اور ان کی معلومات کو کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔

(وی او اے)