امریکہ میں زیادہ تر رنگ نسل یا زبان کی بنیاد پر ووٹ نہیں ڈالا جاتا۔ لیکن، ہم لوگوں کی سوئی جونہی امریکہ سےواپس پاکستان پر آتی ہے تو اکثر لغت سے عدم تعصب کا لفظ بھی مٹ جاتا ہے
واشنگٹن —
دنیا بھر کے ممالک سے آئے ہوئے لوگوں کی طرح پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بھی امریکہ میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک ہے۔ نیویارک کی سڑکوں پر بھیک مانگنے سے لے کر امریکن فٹ بال ٹیم جیگوارز کے مالک شاہد خان تک لاتعداد پاکستانی امریکی رنگ میں ڈھل چکے ہیں۔
لیکن، جب کبھی ہم میں سے اکثر بیٹھتے ہیں تو مغربی روشن خیالی کا لبادہ اتارنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ جانے اس کی وجہ پرائمری اور مڈل سطح پر پڑھی جانے والی کورس کی کتابیں ہیں ، گلی محلوں کی سطح پر پھیلائی جانے والی امتیازی سلوک کی سوچ یا پھر وہ احساسِ محرومی ہے جس کا شکوہ سیاستدان اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے کرتے ہیں۔
’ڈیوائڈ اینڈ رول‘ کا فارمولا آج بھی کامیاب ہے۔ رنگ، نسل، علاقے، قبلیے، زبان، شہر، صوبے غرض جس سطح پر تقسیم کر سکو کردو، پانی کا تنازعہ، گندم کا تنازعہ، کھاد کا تنازعہ، سڑکوں کا تنازعہ، نالیوں کا تنازعہ، ترقیاتی فندز کا تنازعہ، ایک شہر کو زیادہ دوسرے شہر کو کم توجہ دینے کا تنازعہ، جنوبی اور وسطی کا تنازعہ، زبانوں کا تنازعہ، آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ ٕمحمد عاطف کو یہ باتیں اب یاد آئی ہیں۔ہم تو کئی دہائیوں سے یہ سب دیکھ رہے ہیں۔
وطنِ عزیز کے گھائل سینے پر لگے ان تمام زخموں کو کریدنے کی وجہ ابراہم لنکن کی 1858 ءکی ایک تقریر ہے جس میں انہوں نے کہا تھا:
“A house divided against itself cannot stand”
’’ایک ایسا گھر جو اپنے ہی خلاف بٹا ہو کھڑا نہیں ہو سکتا‘‘
امریکہ میں رہتے ہوئے یہ اندازہ بہت جلد ہو جاتا ہے کہ اگر یہاں کسی سطح پر نسلی تعصب موجود ہے تو اس کی مخالفت معاشرے کی ہر سطح پر کی جاتی ہے۔ امریکہ جہاں زیادہ تر رنگ نسل یا زبان کی بنیاد پر ووٹ نہیں ڈالا جاتا، لیکن، ہم لوگوں کی سوئی جونہی امریکہ سے واپس پاکستان پر آتی ہے تو اکثر لغت سے عدم تعصب کا لفظ بھی مٹ جاتا ہے۔
پچھلے سات سالوں میں امریکہ میں رہتے ہوئے مجھے اپنے پیشے کی وجہ سے ٹیکسی ڈرایئورں سے لے کر پیزا پھینکنے والوں اور ڈاکٹروں سے لے کر کامیاب کاروباری ہموطنوں سے ملنے کے مواقع ملے۔
افسوس یہ ہے کہ تعصبانہ سوچ کافی نظر آئی۔ امریکہ میں بھی پاکستان میں بسنے والے پٹھان کی پہچان نسوار ہے، سندھی سردائی پیتا ہے، مہاجر پان کھاتا ہے، بلوچی لڑاکا ہے اور پنجابی پینڈو ہے۔
صحافت کے علاوہ میرے مشاغل میں کرکٹ بھی شامل ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک پریکٹس سیشن کے بعد میری ٹیم کے دوستوں نے مجھ سے پاکستانی سیاست اور انتخابات کے بارے میں دریافت کیا۔ تو میں نےعوامی رائے عامہ کے جائزوں اور ہیوی ویٹس کے تناسب سے اپنی رائے کا اظہار کیا اور کہا کہ فی الحال مسلم لیگ (ن) باقی جماعتوں کی نسبت زیادہ مضبوط نظر آتی ہے۔ میرے اس تجزیے سے کچھ دوست ناراض ہو گئے، کیونکہ کچھ لوگ ایم کیو ایم کے حامی تھے اور بعض پی ٹی آئی کے۔ برا نہ منایئے گا ،لیکن پی پی پی پارلیمٹیرینز کا میری کرکٹ ٹیم میں کوئی حامی نہیں ہے۔ اس کہ وجہ شائد پچھلے پانچ سال ہیں۔
میرے سوال کرنے پر ایک صاحب نے کہا کہ شریف برادران نے پچھلے پانچ سال میں کچھ نہ کیا اور کرپشن بھی سب سے زیادہ کی۔ میں نےکہا کہ’ ٹرانسپریسی انٹرنیشنل‘ کے مطابق پنجاب میں نسبتاً سب سے کم کرپشن ہوئی۔ اور ترقیاتی کام بھی زیادہ ہوئے تو ایک دوست بولے کہ پنجاب میں اس لیے کام ہوتا ہے کیونکہ وہاں سب پنجابی ہیں اور کراچی میں اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ وہاں دوسرے علاقوں کےبہت سے لوگ موجود ہیں۔ مجھے نعمت الله خان اور مصطفی کمال کے دور میں کراچی میں ہونے والے ترقیاتی پراجیکٹ یاد آگئے۔
وطنِ عزیز میں انتخابات کا موسم ہے، یہ تحریر پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ ووٹ ڈالتے ہوئے یہ نہ دیکھیے گا کہ امیدورا سردار ، مخدوم، ملک، چوہدری یا خان ہے، وہ سر پر پگڑی پہنتا ہے یا ٹوپی۔ لباس انگریزی پہنتا ہے یا شلوار قمیض۔ اب کی بار اپنی برادری کو ووٹ دینے کے بجائے اپنی خوشحالی اور اپنے بچوں کے مستقبل کو ووٹ ڈالیے گا۔
لیکن، جب کبھی ہم میں سے اکثر بیٹھتے ہیں تو مغربی روشن خیالی کا لبادہ اتارنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ جانے اس کی وجہ پرائمری اور مڈل سطح پر پڑھی جانے والی کورس کی کتابیں ہیں ، گلی محلوں کی سطح پر پھیلائی جانے والی امتیازی سلوک کی سوچ یا پھر وہ احساسِ محرومی ہے جس کا شکوہ سیاستدان اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے کرتے ہیں۔
’ڈیوائڈ اینڈ رول‘ کا فارمولا آج بھی کامیاب ہے۔ رنگ، نسل، علاقے، قبلیے، زبان، شہر، صوبے غرض جس سطح پر تقسیم کر سکو کردو، پانی کا تنازعہ، گندم کا تنازعہ، کھاد کا تنازعہ، سڑکوں کا تنازعہ، نالیوں کا تنازعہ، ترقیاتی فندز کا تنازعہ، ایک شہر کو زیادہ دوسرے شہر کو کم توجہ دینے کا تنازعہ، جنوبی اور وسطی کا تنازعہ، زبانوں کا تنازعہ، آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ ٕمحمد عاطف کو یہ باتیں اب یاد آئی ہیں۔ہم تو کئی دہائیوں سے یہ سب دیکھ رہے ہیں۔
وطنِ عزیز کے گھائل سینے پر لگے ان تمام زخموں کو کریدنے کی وجہ ابراہم لنکن کی 1858 ءکی ایک تقریر ہے جس میں انہوں نے کہا تھا:
“A house divided against itself cannot stand”
’’ایک ایسا گھر جو اپنے ہی خلاف بٹا ہو کھڑا نہیں ہو سکتا‘‘
امریکہ میں رہتے ہوئے یہ اندازہ بہت جلد ہو جاتا ہے کہ اگر یہاں کسی سطح پر نسلی تعصب موجود ہے تو اس کی مخالفت معاشرے کی ہر سطح پر کی جاتی ہے۔ امریکہ جہاں زیادہ تر رنگ نسل یا زبان کی بنیاد پر ووٹ نہیں ڈالا جاتا، لیکن، ہم لوگوں کی سوئی جونہی امریکہ سے واپس پاکستان پر آتی ہے تو اکثر لغت سے عدم تعصب کا لفظ بھی مٹ جاتا ہے۔
پچھلے سات سالوں میں امریکہ میں رہتے ہوئے مجھے اپنے پیشے کی وجہ سے ٹیکسی ڈرایئورں سے لے کر پیزا پھینکنے والوں اور ڈاکٹروں سے لے کر کامیاب کاروباری ہموطنوں سے ملنے کے مواقع ملے۔
افسوس یہ ہے کہ تعصبانہ سوچ کافی نظر آئی۔ امریکہ میں بھی پاکستان میں بسنے والے پٹھان کی پہچان نسوار ہے، سندھی سردائی پیتا ہے، مہاجر پان کھاتا ہے، بلوچی لڑاکا ہے اور پنجابی پینڈو ہے۔
صحافت کے علاوہ میرے مشاغل میں کرکٹ بھی شامل ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک پریکٹس سیشن کے بعد میری ٹیم کے دوستوں نے مجھ سے پاکستانی سیاست اور انتخابات کے بارے میں دریافت کیا۔ تو میں نےعوامی رائے عامہ کے جائزوں اور ہیوی ویٹس کے تناسب سے اپنی رائے کا اظہار کیا اور کہا کہ فی الحال مسلم لیگ (ن) باقی جماعتوں کی نسبت زیادہ مضبوط نظر آتی ہے۔ میرے اس تجزیے سے کچھ دوست ناراض ہو گئے، کیونکہ کچھ لوگ ایم کیو ایم کے حامی تھے اور بعض پی ٹی آئی کے۔ برا نہ منایئے گا ،لیکن پی پی پی پارلیمٹیرینز کا میری کرکٹ ٹیم میں کوئی حامی نہیں ہے۔ اس کہ وجہ شائد پچھلے پانچ سال ہیں۔
میرے سوال کرنے پر ایک صاحب نے کہا کہ شریف برادران نے پچھلے پانچ سال میں کچھ نہ کیا اور کرپشن بھی سب سے زیادہ کی۔ میں نےکہا کہ’ ٹرانسپریسی انٹرنیشنل‘ کے مطابق پنجاب میں نسبتاً سب سے کم کرپشن ہوئی۔ اور ترقیاتی کام بھی زیادہ ہوئے تو ایک دوست بولے کہ پنجاب میں اس لیے کام ہوتا ہے کیونکہ وہاں سب پنجابی ہیں اور کراچی میں اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ وہاں دوسرے علاقوں کےبہت سے لوگ موجود ہیں۔ مجھے نعمت الله خان اور مصطفی کمال کے دور میں کراچی میں ہونے والے ترقیاتی پراجیکٹ یاد آگئے۔
وطنِ عزیز میں انتخابات کا موسم ہے، یہ تحریر پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ ووٹ ڈالتے ہوئے یہ نہ دیکھیے گا کہ امیدورا سردار ، مخدوم، ملک، چوہدری یا خان ہے، وہ سر پر پگڑی پہنتا ہے یا ٹوپی۔ لباس انگریزی پہنتا ہے یا شلوار قمیض۔ اب کی بار اپنی برادری کو ووٹ دینے کے بجائے اپنی خوشحالی اور اپنے بچوں کے مستقبل کو ووٹ ڈالیے گا۔