زینب قتل کیس میں حکومت پنجاب کے دعوے کے مطابق، ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج کی بنیاد پر عمران نامی مبینہ قاتل کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں ڈی این اے ٹیسٹ جرائم کی تحقیقات میں بہترین معاون اور قابل بھروسہ تکنیک ہے۔ لیکن، کیا پاکستان کے اندر سائنسی معیار کی بنیاد پر ڈی این اے ٹیسٹ قابل بھروسہ ہو سکتا ہے اور اگر ہو بھی تو کیا مذہبی اور سماجی نظریات عدالت کو اس ٹیسٹ کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں؟
یہ بات صحیح ہے کہ کسی بھی جائے واقعہ سے ملنے والے اجزاء کے ڈی این اے ٹیسٹ سے جنیاتی شناخت حاصل کی جاسکتی ہے۔ سائنسی ماہرین ڈی این اے کو تمام جانداروں کی شناخت کا جدید ترین اور قابل بھروسہ ثبوت قرار دیتے ہیں، کیونکہ قدرتی طور پر ہر جاندار کا ڈی این اے ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ بلکل اسی طرح جس طرح ہر شخص کے انگلیوں نے نشان مختلف ہوتے ہیں۔
کسی بھی انسان کی شناخت کے لئے کسی شخص کے زیر استعمال تولیہ، کپٹرے، اس کے جسم کی رطوبتیں، کٹے ہوئے بال اور ناخن سمیت ہر اس شے سے جو اس نے استعمال کی ہو، ڈین این اے کے نمونے حاصل کئے جاسکتےہیں۔
اور، اس ضمن میں، جانچ کرکے متاثرہ شخص سے ملنے والے ڈین این اے نمونوں سے ملایا جاتا ہے۔
اس تکنیک سے طب کے شعبہ اور تفتیش میں انقلاب برپا ہوا ہے اور اب کوئی بھی مجرم اپنی شناخت چھپا نہیں سکتا۔ امریکہ میں لیبارٹری کا 30 سالہ تجربہ رکھنے والے ’لیب یو ایس اے‘ کے صدر، فاروق آفریدی کہتے ہیں کہ ’’اس وقت یہ ٹیکنالوجی اتنی ایڈوانس ہوچکی ہے کہ اس کی ٹیسٹنگ ننانوے اشاریہ نو فیصد درست ہوتی ہے۔ ڈی این اے اور جینس ہر ایک کی اپنی اپنی فکس ہوتی ہے۔ اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
اس کے باوجود، ماضی میں یہ مثال موجود ہے کہ پاکستان کی ایک عدالت نے ڈی این اے کو قابل اعتماد ثبوت تسلیم نہیں کیا۔ ساتھ ہی اسلامی نظریاتی کونسل بھی اس ثبوت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ تو کیا زینب کیس میں ڈی این اے کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ملزم بھی دھول بیٹھنے کے بعد رہا نہیں ہوسکتا ہے؟
شناختی تکنیک کے عالمی ماہر اور ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی‘ کے سابق سربراہ، طارق ملک کہتے ہیں کہ ’’پانچ سال قبل لودھراں سے آنے والے 18 سالہ لڑکی سے جنسی زیادتی ’فادر آف دی نیشن‘ کے مزار کے احاطے میں ہوا۔ ملزم گرفتار ہوگیا۔ ڈھونڈنا تو نہیں پڑا۔ ڈی این اے ہوا مگر پانچ سال بعد عدالت نے فیصلہ سنایا کہ ڈی این اے کا ثبوت قابل قبول نہیں ہے اور اب اسلامی نظریاتی کونسل کا بھی فیصلہ دیکھ لیجئے، ڈی این اے کو شہادت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
لیکن، اسی اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن اور تنظیم وفاق المدارس کے سربراہ، حنیف جالندھری کہتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بڑے غور و خوض کے بعد اس بات کی منظوری دی تھی کہ ڈی این اے ٹیسٹ کو بطور قرینہ تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
بقول مولانا حنیف جالندھری، ’’اس بارے میں کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی، جو ایک آئنی ادارہ ہے، اس میں یہ سوال زیر بحث آیا تھا۔ کونسل نے بڑے تفیصلی غو و خوص کے بعد کہا تھا کہ اس کو ایک مضبوط قرینے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دراصل، اسلام میں سزاء دو طرح کی ہیں ایک حدود اور ایک ہے تعزیری۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ اسلام سزاؤں کے معاملے میں بڑی لچک رکھتا ہے۔ جو تعزیری سزا ہوتی ہے وہ عدالت کی صوابدید پر ہوتی ہے۔ بہت کم جرائم ہیں جن کی سزا شریعت نے مقرر کی ہے۔ اکثر کی عدالت پر چھوڑی ہے کہ وہ مجرم کو جرم کی نوعیت کو دیکھ کر فیصلہ کریں۔ تو ڈی این اے ٹیسٹ ہو یا جو بھی جدید سائنسی طریقے سے سامنے آئیں اسے عدالت مضبوط ثبوت بنا سکتی ہے۔ لیکن ایک مضبوط قرینے کے طور پر‘‘۔
ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ ملک میں جرائم کے خاتمے کےلئے قانون کی خلاف ورزیوں میں ملوث عناصر کا ایک ڈی این اے بینک قائم کیا جائے۔
طارق ملک مزید کہتے ہیں کہ ’’پوری دنیا میں جو پریکٹس ہے وہ ڈی این اے کی کریمنل کے لئے ہے۔ جب کوئی کرائم کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو اس کا ڈی این اے لے کر ایک نیشنل رجسٹری بنائی جاتی ہے۔ اس میں ایک تھوڑا سا سیول لیبارٹری کا مسئلہ بھی آجاتا ہے، کیونکہ ڈی این اے صرف بندے کی شناخت نہیں کرتا بلکہ اس کے عادات و اطوار کی شناخت کرسکتا ہے۔ تو ہماری جیسی حکمرانی رہی ہے کہ ڈیٹا کو استعمال کریں پروفائیلنگ کے لئے تو اس لئے بہتر ہے ڈی این اے کو فورنزک کے لئے رکھا جائے، ملزمان کے لئے اور مجرموں کے لئے رکھا جائے تو وہ زیادہ بہتر ہے‘‘۔
ایسے میں جب زینب کے واقعے کے بعد پاکستان میں پولیس کےنظام کو جدید بنانے اور تفتیش کو سائنسی بنیادوں پر نئے سرے سے استوار کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ تجزیہ نگار سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا سیاسی اشرافیہ اور مقتدر حلقے ملک کو جرائم سے پاک کرنے کے لئے نظام میں حقیقی تبدیلی کے لئے سنجیدہ ہیں؟