شام کے شہر حلب میں موجود ڈاکٹروں کے ایک گروپ نے امریکہ کے صدر براک اوباما کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں علاقے میں ہونے والی تباہی کا احوال بیان کرتے ہوئے شہر کا محاصرہ اور شہریوں پر حملے ختم کروانے کے لیے اقدام کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
پانچ سال قبل جنگ شروع ہونے سے قبل حلب شام کا دوسرا بڑا شہر تھا جہاں تسلط قائم کرنے کے لیے باغیوں اور سرکاری فورسز کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
اس لڑائی میں شفاخانوں پر بھی کئی حملے ہو چکے ہیں اور اسی تناظر میں ڈاکٹروں نے اپنے خط میں لکھا کہ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو ایک ماہ کے اندر اندر حلب سے صحت کی سہولتیں مکمل طور پر ختم ہو جائیں گی۔
"بحیثیت ڈاکٹر ہمارے لیے جو سب سے زیادہ تکلیف کا باعث ہے وہ یہ فرق کرنا ہے کہ کون زندہ رہے گا اور کون نہیں۔ نوجوان بچے اس شدید زخمی حالت میں ہمارے پاس لائے جاتے ہیں کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ جس کے بچنے کے امکانات زیادہ ہوں اسے ترجیح دی جائے اور ہمارے پاس آلات ہی نہیں ہیں کہ ہم ان کی مدد کریں۔"
حلب کے محاصرے کے باعث بہت سے لوگ خوراک اور طبی امداد کی ضرورت میں مبتلا ہیں۔ اقوام متحدہ نے یہاں سامان پہنچانے کی کوشش بھی کی لیکن یہ کاوشیں جاری لڑائی کے باعث متاثر ہوئیں۔
اقوام متحدہ کی زیر قیادت شام کی جنگ میں مصروف فریقین کے درمیان امن بات چیت کی کوششیں بھی تاحال بارآور ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔ ان کوششوں میں امریکہ اور روس بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹرز نے اپنے خط میں لکھا کہ "پانچ سالوں سے ہم روزانہ موت کا سامنا کرتے آرہے ہیں۔ ان پانچ سالوں میں دنیا ساتھ کھڑی یہ کہتی رہی کہ شام کی صورتحال کتنی پیچیدہ ہے اور لیکن اس نے ہمارے تحفظ کے لیے بہت ہی کم کوششیں کیں۔"
ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ انھیں ہمدری یا آنسو اور دعائیں نہیں چاہیئں بلکہ ضرورت اس چیز کی ہے کہ بمباری بند ہو اور مستقبل میں کسی محاصرے سے بچنے کے لیے بین الاقوامی اقدام کیے جائیں۔
ادھر روس کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ حلب کے گردو نواح میں روزانہ تین گھنٹوں کے لیے فائر بندی کرے گا تاکہ امدادی سامان شہر میں پہنچایا جا سکے۔
بدھ کو یہ اعلان کرتے ہوئے بتایا گیا کہ مقامی وقت کے مطابق یہ وقفہ صبح دس بجے سے دن ایک بجے تک ہوگا جس کے دوران گولہ باری اور فضائی کارروائیاں بھی نہیں کی جائیں گی۔