کوئٹہ میں ڈاکٹرز پر پولیس تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف بلوچستان بھر کے سرکاری اسپتالوں میں طبی عملے کی ہڑتال جاری ہے۔
صوبائی دارالحکومت سمیت دیگر اضلاع کے سرکاری اسپتال مکمل طور بند ہیں۔ جس سے کرونا وائرس سے متاثرہ افراد سمیت تمام مریض پریشانی کا شکار ہیں۔
بلوچستان کی ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان ڈاکٹر رحیم بابر کا کہنا ہے کہ گزشتہ رات ڈاکٹرز نے تھانوں میں گزاری ہے۔ جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں ہوں گے کسی شعبے میں بھی ڈاکٹر خدمات انجام نہیں دیں گے۔
ان کے مطابق ڈاکٹرز صرف انتہائی نگہداشت کے وارڈ (آئی سی یو) میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
'ڈاکٹرز اپنی مرضی سے تھانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں'
دوسری جانب حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی کے مطابق ڈاکٹرز کو گزشتہ شب ہی رہا کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا لیکن وہ اپنی مرضی سے تھانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
لیاقت شاہوانی نے مزید بتایا کہ ڈاکٹرز سے گزشتہ رات صوبائی وزرا نے مذاکرات بھی کیے لیکن انہوں نے مذاکرات میں کوئی مثبت جواب نہیں دیا ۔
انہوں نے حکومت کی طرف سے ڈاکٹروں سے اپیل کی کہ وہ عوام کے لیے اپنی خدمات انجام دیں۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، ینگ نرسز ایسوسی ایشن بلوچستان اور پیرا میڈیکس کی جانب سے حفاظتی کٹس، ماسکس سمیت دیگر ضروری آلات کی فراہمی کے لیے احتجاج کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز احتجاج کے دوران وزیراعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش کی گئی جس پر پولیس نے دفعہ 144 کے نفاذ کو بنیاد بنا کر مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی جب کہ متعدد کو گرفتار بھی کیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ ڈاکٹرز نے جن آلات اور ادویہ کا تقاضہ کیا حکومت نے وہ سب فراہم کی ہیں۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ حکومت نے حفاظتی اشیا فراہم نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ اسپتالوں میں دو ہزار سے زائد پی پی ایز فراہم کیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ پرسنل پروٹیکٹیو ایکویپمنٹ (پی پی ای) اس لباس کو کہا جاتا ہے جو طبی عملہ کرونا وائرس سے اپنی حفاظت کے لیے پہنتا ہے۔
لیاقت شاہوانی نے مزید کہا کہ 32 ہزار این-95 ماسک خریدے گئے جن میں سے 10 ہزار تفتان بھیجے گئے جب کہ باقی اسپتالوں کو فراہم کر دیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک ہفتے میں 50 ہزار سے زائد این-95 ماسک، 32ہزار سرجیکل ماسک، 25 ہزار دستانے اور 10ہزار حفاظتی ٹوپیاں اسپتالوں کو دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ادویہ اور آلات دیے گئے ہیں۔
ان کے بقول بلوچستان حکومت نے چین کو سات لاکھ سے زائد این-95 ماسک کا آرڈر دے دیا ہے۔ جب کہ چار ہزار پی پی ایز منگوائی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ ہے۔ ڈاکٹرز ایک دن قبل ہجوم کی صورت میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب مارچ کیا۔
ان کے بقول ڈاکٹرز سے گزارش کی گئی کہ وہ ہجوم کی صورت میں جمع نہ ہوں جب احکامات نہ مانے گئے تو ان کے خلاف ایکشن لیا گیا۔ جب کہ گرفتار ڈاکٹرز کو ایک گھنٹے بعد رہا بھی کر دیا گیا۔
'ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کسی کے لیے استعمال نہ ہو'
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان میں صحت کا شعبہ مختلف مافیاز کے ہاتھ میں رہا ہے۔ ایم ایس ڈی، سنئیر ڈاکٹرز و پروفیسرز، بیورو کریسی اور سیاست دانوں کی شکل میں مافیاز میڈیکل سپلائی اور تبادلوں پر کنٹرول چاہتا ہے۔
ان کے بقول ینگ ڈاکٹرز اس مافیا کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ انہیں الزام نہیں دیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے ذاتی طور پر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن سے نشست کی اور انہیں کنٹریکٹ ڈاکٹروں کے مسئلے کے حل اور نئی آسامیاں مشتہر کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے اسپتالوں کے ایم ایس کے دفاتر کی تالہ بندی غیر مناسب عمل ہے۔ کابینہ نے اپنے اجلاس میں شعبہ صحت کے لیے 1400 سے زائد آسامیوں کی منظوری دی ہے۔ اگر حکومت سنجیدہ نہ ہوتی تو خالی آسامیوں پر بھرتی کی منظوری بھی نہ دیتی۔
جام کمال خان نے کہا کہ ہم نے جو وعدہ کیا اسے پورا کیا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کسی کے لیے استعمال نہ ہو۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے تمام سر کاری اسپتالوں میں ایمرجنسی کے علاوہ تمام شعبہ جات میں مکمل طور پر کام بند کر دیا گیا ہے۔ جس کے بعد مریض اسپتالوں کے ایک شعبے سے دوسرے شعبے کے چکر لگا رہے ہیں۔ کہیں سے کسی قسم کی مدد نہ ملنے پر مریض مایوسی ہو کر واپس گھروں جا رہے ہیں۔
بلوچستان میں اس وقت کرونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 200 تک پہنچ چکی ہے جب کہ وبا سے ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے ایران کے ساتھ سرحدی شہر تفتان میں سرحد پار سے سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں داخل ہونے والوں کو تفتان میں ہی قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے۔