دنیا بھر میں تقریبا ایک ارب افراد کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ جبکہ پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت کئی جنوبی ایشیائی ممالک میں یہ مسئلہ سنگین نوعیت اختیار کرچکاہے ۔ 22 مارچ کا دن اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دنیا بھر میں پانی کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا ۔ اس سلسلے میں واشنگٹن میں قائم آرگنائزیشن پولٹزر سینٹر نے بنگلہ دیش میں پینے کے صاف پانی کے حصول میں درپیش مشکلات پر ایک دستاویزی فلم کی نمائش کی۔
ڈھاکہ چیلنج نامی اس فلم میں فلمساز سٹیفن سپینزا نے ایشیا کے تیزی سے پھیلتے ہوئے شہر ڈھاکہ کو موضوع بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈھاکہ کی ڈیڑھ کڑور کی آبادی کا ایک تہائی کچی آبادیوں میں رہتا ہے جہاں پینے کے صاف اور محفوظ پانی تک رسائی بہت ہی کم ہے۔
سٹیفن کا کہنا ہے کہ آپ ڈھاکہ میں یہ عام دیکھ سکتے ہیں۔ بیت الخلا کے لیے لوگ ندی نالوں اور دریاؤں کے کنارے استعمال کرتے ہیں۔
صحت اور صفائی کے لیے یہ ایک تباہ کن صورتحال اس سال کے ورلڈ واٹر ڈے کا موضوع بھی واٹر فار سٹئز یعنی ۔ شہروں میں صاف پانی تک رسائی۔ہر سال چار لاکھ کے قریب نئے مکین ڈھاکہ کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر کچی آبادیوں کا رخ کرتے ہیں ۔ شہر میں موجود پانی ڈھاکہ واٹر اینڈ سیویریج اتھارٹی کے زیر نگرانی ہے لیکن صرف شہر میں زمین کے مالکان کو ہی اس پانی کی فراہمی کی جاسکتی ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ مقامی غیر سرکاری تنظیمیں اس قانون کو بدلنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور شہر کے غریب عوام کے لیے پانی کی سہولت حاصل کررہی ہیں۔دایبالوک سنگھا اسی طرح کی ایک تنظیم کے بانی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کوشوں سے دونوں کا فائدہ ہوتا ہے، ڈھاکہ واسا کو اس سے مالی فائدہ پہنچ رہا ہے اور غریب عوام کو پانی کی سہولت۔کیونکہ نجی کمپنیوں کے مقابلے میں واسا کا پانی سستا ہے۔
سٹیفن سپینزا کا کہنا ہے کہ دیکھا دیکھی اب بنگلہ دیش کی دوسری غیر منافع بخش تنظیمیں بھی ان کوششوں میں آگے آرہی ہیں۔ اور یہ ماڈل دنیا کے دوسرے ملکوں کے لیے بھی کار آمد ثابت ہو سکتا ہے ۔
ان کا کہناہے کہ میرے خیال سے سب سے بڑا مسئلہ تھا کہ مقامی حکومت کو بتایا جائے کہ غریب افراد اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ پانی کی حاصل کرنے میں لگاتے ہیں اور اگر آپ انھیں شہر کے پانی پر اختیار دیں تو وہ بخوشی اس کی ادائیگی کریں گے۔
سٹیفن سیپنزا کہنا ہے کہ ان کی فلم ان مسائل کا حل پیش کرتی ہے ۔ آپ ان تجاویز پر چھوٹے پیمانے پر عمل شروع کرسکتے ہیں اور اگر دیکھا جائے تو اس طرح ہزاروں جانیں بھی بچائی جا سکتی ہیں۔