کیا آئینِ پاکستان انتخابات میں التوا کی اجازت دیتا ہے؟

پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف ملک میں فوری عام انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ تاہم دونوں صوبوں کے گورنر نے عندیہ دیا ہے کہ دو صوبوں میں انتخابات کے بجائے ملک بھر میں الیکشن ایک ہی روز ہونے چاہئیں۔


منگل کو لاہور میں خیبر پختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی سے ملاقات کے بعد گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دو مرحلوں میں انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس پر اربوں روپے کی زائد رقم خرچ ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک معاشی مسائل کا شکار ہے اور انتخابات پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور جب معلوم ہے کہ چھ ماہ بعد ملک بھر میں عام انتخابات آ رہے ہیں تو پھر دو صوبوں میں جلد الیکشن کی ضد کیوں کی جا رہی ہے۔

اس سے قبل حکمراں اتحاد بھی واضح کر چکا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات 90 دن کی مدت کے بعد کرانے کے لیے "نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔"

دوسری جانب حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں تاخیر پر جیل بھرو تحریک کا اعلان کر رکھا ہے۔

سابق نگران وزیر اعلی پنجاب پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ واضح ہو رہا ہے کے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنرز اپنی پارٹی پوزیشن لیے ہوئے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر انتخابات کروانا لازمی ہے تاہم حکومت آئین کی شق 254 کو مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہوئے اپنے مؤقف کی حمایت لے رہی ہے۔


وہ کہتے ہیں کہ آئین کی یہ شق رعایت دیتی ہے نہ کہ ضمانت دیتی ہے کہ انتخابات میں تاخیر کی جاسکتی ہے۔

سابق وفاقی سیکریٹری برائے الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 254 میں واضح ہے کہ اگر ناگزیر حالات پیدا ہوجائیں اور وقت میں انتخابات کرانے میں دشواریاں آ رہی ہوں تو اس آرٹیکل کے تحت الیکشن کو التوا میں ڈالا جا سکتا ہے۔اسے آئین کی خلاف ورزی نہیں سمجھا جائے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ امن و امان کی موجودہ صورتِ حال اور معاشی بحران کی صورت میں اگر گورنر انتخابات کرانے کے حوالے سے مطمئن نہیں تو آئین انہیں اس کی اجازت دیتا ہے۔

خیال رہے کہ آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت گورنر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرے۔

کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں جب ملک میں عام انتخابات بھی قریب ہیں تو ریاستی وحدت کو دیکھتے ہوئے چند ماہ کے اس فرق کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

ان کے بقول موجودہ حالات میں ایک ساتھ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی بات کرنا آئین کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

حسن عسکری بھی کہتے ہیں کہ کسی خاص ہنگامی صورتِ حال میں انتخابات کو التوا میں ڈالا جاسکتا ہے جیسا کہ 2008 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے عام انتخابات کی تاریخ کو آگے لے جایا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ 1988 میں جنرل ضیاء الحق نے بھی انتخابات کی تاریخ کا دیر سے اعلان کیا تھا جس پر معاملہ عدالت میں گیا اور سپریم کورٹ نے آرٹیکل 254 کے تحت ہی کہا تھا کہ اب جب کہ انتخابات کی تیاری ہوگئی ہے تو اس معاملے کو آگے جانے دیا جائے۔

تاہم حسن عسکری نے کہا کہ آرٹیکل 254 کے تحت بھی انتخابات میں تاخیر کی عدالت سے توثیق درکار ہو گی۔

کنور دلشار نے بتایا کہ جب وہ وفاقی سیکریٹری برائے الیکشن کمیشن تھے تو امن و امان کی صورتِ حال کے باعث کرم ایجنسی میں ضمنی انتخابات تین سال نہیں ہو پائے جب کہ آئین کے مطابق یہ انتخاب 60 دن میں ہونا تھا۔

وہ کہتے ہیں آئین ریاست کے ساتھ چلتا ہے اور ریاسست کے مفاد میں ہی آئین کی شقوں کی تعبیر و تشریح کی جاتی ہے۔

حسن عسکری کہتے ہیں کہ موجود حالات میں اگر انتخابات 90 دن سے آگے جاتے ہیں تو یہ معاملہ عدالت میں جائے گا بلکہ پہلے ہی سے پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ بحث کہ 90 دن میں انتخابات نہ کروانا حالات کی مجبوری یا دانستہ آئین کی خلاف ورزی ہے اس کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی تفریق کے ماحول میں انتخابات میں تاخیر جھگڑے کو بڑھائے گی اور حالات مزید خراب ہوں گے۔ ان کے بقول انتخابات میں تاخیر عدالتی مسائل بھی بڑھائے گی اور سیاسی حالات بھی بگڑیں گے۔