امریکی انٹیلی جنس رپورٹ؛ کیا واقعی بھارت کی چین یا پاکستان سے جنگ ہو سکتی ہے؟

امریکی محکمہ انٹیلی جنس کی سالانہ رپورٹ میں بھارت کی چین اور پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کے خدشات ظاہر کیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اگر کشیدگی بہت زیادہ بڑھتی ہے تو وہ جنگ کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے۔

امریکی انٹیلی جنس کی جانب سے ہر سال ایک ایسی رپورٹ جاری کی جاتی ہے جس میں ملکوں کو لاحق خطرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ حال ہی میں امریکی کانگریس کے سپرد کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2020 میں لداخ کی گلوان وادی میں بھارت اور چین کے درمیان خونیں تصادم کے بعد جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوئے تھے، پیدا ہونے والی باہمی کشیدگی کے آگے بھی برقرار رہنے کا اندیشہ ہے۔

رپورٹ میں روس یوکرین جنگ کے تناظر میں کہا گیا ہے کہ چین اور پاکستان کے ساتھ بھارت کی لڑائی کے ایسے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں کہ امریکہ اس جانب فوری طور پر اپنی توجہ مبذول کرے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کے پاس ضابطوں پر مبنی عالمی نظام کو براہ راست تبدیل کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ عالمی نظام کو بدلنے کی کوشش کے ساتھ اپنے ہمسایہ ملکو ں کے لیے خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔

رپورٹ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر چین اور بھارت کی توسیع شدہ فوجی تیاریوں کے حوالے سے جوہری طاقتوں کے درمیان مسلح ٹکراؤ کے خطرے کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے امریکی شہریوں اور مفادات کو بھی خطرات لاحق ہو جائیں اور امریکہ کی مداخلت ناگزیر ہو جائے گی۔


رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان کی سرزمین سے سرگرم گروپوں کی جانب سے بھارت کے خلاف دہشت گرد حملے ہوتے ہیں یا بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تشدد پھوٹ پڑتا ہے تو مودی حکومت کا ردِعمل زیادہ سخت ہو سکتا ہے۔

اس بارے میں پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں امن اور مذاکرات کی وکالت کرتا رہا ہے۔ خطے میں امن اور دوستی پاکستانی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔

ترجمان پاکستانی دفترِ خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ کا وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ جموں و کشمیر سمیت تمام ایشوز پر نتیجہ خیز مذاکرات کے حق میں ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ بھارت کے معاندانہ رویے کی وجہ سے ایسا ماحول نہیں بن پا رہا ہے۔

امریکی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انتہاپسند گروپوں کی حمایت کرنا پاکستان کی طویل تاریخ ہے۔ اس پر ممتاز بلوچ کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی سے لڑائی کے عہد کا پاپند ہے۔ وہ خود مبینہ طور پر اپنے پڑوس سے پیدا ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہے۔

واضح رہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں ایک دوسرے پر دہشت گردی کو ہوا دینے کا الزام عائد کرتے ہیں اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کرتے ہیں۔

'امریکی رپورٹ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا'

سینئر دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شنکر پرساد کا کہنا ہے کہ امریکی رپورٹ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر چین یا پاکستان کی جانب سے کوئی کارروائی کی گئی تو بھارت بہت سوچ سمجھ کر اور سخت ردِعمل ظاہر کرے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بات دررست ہے کہ چین ایک بہت بڑی طاقت ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھار ت کمزور ہے۔

لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شنکر پرساد کا کہنا تھا کہ آج بھارت سیاسی، اقتصادی اور فوجی و سفارتی اعتبار سے کافی مضبوط ہے۔ ایل اے سی پر اگر چین کے0 5 ہزار فوجی تعینات ہیں تو بھارت کے بھی 50 ہزار تعینات ہیں۔

ان کے مطابق ایل اے سی پر بھارت کی جانب سے کافی ترقیاتی کام کیے گئے ہیں۔ وہاں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ہو رہی ہے اور مقامی طور پر لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی رپورٹ کی یہ بات کافی حد تک صحیح ہے کہ اگر چین یا پاکستان کی جانب سے کوئی کارروائی کی گئی تو بھارت ٹھوس انداز میں جواب دے گا۔ ان کے بقول قبل ازیں بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں اڑی کے مقام پر ہونے والی واردات کا جواب دیا اور پلوامہ حملے کے بعد بالاکوٹ میں کارروائی کی۔

یاد رہے کہ بھار تی میڈیا کا دعویٰ تھا کہ بھارتی فضائیہ نے بالاکوٹ میں جیش محمد کے ٹھکانے پر حملہ کرکے کافی جانی و مالی نقصان پہنچایا تھا جب کہ پاکستان اس کی تردید کرتا ہے۔

'چین کو ادراک ہے کہ بھارت سخت ردِعمل دے گا'

امریکی رپورٹ کی اس رائے پر کہ گلوان کے بعد دونوں ملکوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی آگے بھی باقی رہے گی؟ شنکر پرساد کا کہنا تھا کہ گلوان تصادم کو دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس دوران کوئی حادثہ ہوا نہیں۔ ان کے خیال میں چین بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ اگر اس نے کوئی کارروائی کی تو بھارت کی جانب سے سخت ردِعمل ہوگا۔

ان کے بقول گلوان واقعے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کو دور کرنے اور تنازعے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ دونوں ملکوں میں فوجی کمانڈرز کی سطح پر مذاکرات کے 17 ادوار ہو چکے ہیں اور اب 18 ویں دور کی بات ہونے والی ہے۔

سینئر تجزیہ کار شاہین نظر کا بھی کہنا ہے کہ امریکی رپورٹ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ بھارت کو چین کی جانب سے خطرہ ہے۔

'امریکی رپورٹ بی جی پی کے لیے اطمینان کا باعث ہے'

ان کے مطابق اس رپورٹ کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بقول ان کے اس رپورٹ سے بی جے پی حکومت کو کافی راحت محسوس ہو رہی ہو گی۔ کیوں کہ حکومت کو مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل پراپوزیشن کی جانب سے خطرہ ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کے بعد کانگریس رہنما راہل گاندھی کی مقبولیت میں جو اضافہ ہو رہا ہے اس سے خطرہ ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حکومت کو یہ محسوس ہوگا کہ پارلیمانی انتخابات میں اسے دشواریوں کا سامنا ہے تو وہ پاکستان کے خلاف کوئی ایسی کارروائی کر سکتی ہے جس سے 2019 کے پارلیمانی انتخابات کی مانند 2024 میں بھی فائدہ اٹھایا جا سکے۔

ان کے مطابق اس وقت حکومت بہت پریشان اور دباؤ میں ہے۔ اگلے پارلیمانی انتخابات میں حکومت کے پاس عوام کو دکھانے کے لیے کوئی کام نہیں ہے لہٰذا حکومت یہ پروپیگنڈہ کر سکتی ہے کہ اس وقت ملک کو چین اور پاکستان کی جانب سے خطرہ ہے۔

شاہین نظر شنکر پرساد کے اس خیال سے متفق نہیں ہیں کہ اگر چین نے کوئی کارروائی کی تو بھارت کا ردعمل بہت سخت ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت چین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے حال ہی میں یہ بیان دیا ہے کہ چین بہت بڑی معیشت ہے اور ہم اس سے نہیں لڑ سکتے۔ اس بیان پر حزب اختلاف نے اور خاص طور پر راہل گاندھی نے سخت تنقید کی تھی۔

ان کے خیال میں اس وقت پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہے اور چین کے صدر شی جن پنگ تیسری مرتبہ کامیاب ہوئے ہیں اور ان کے سامنے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے اور اپنے عوام کو مطمئن کرنے کا معاملہ درپیش ہے۔ ادھر بھارت امریکہ تعلقات آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں لہٰذا چین کی طرف سے کوئی بھی قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔

بقول ان کے ایل اے سی پر چینی کارروائیوں کے جواب میں بھارت کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھانے اور جے شنکر کے بیان سے چین کے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں۔

وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حکومت حزب اختلاف کو دبانے کے لیے امریکی رپورٹ کا استعمال کر سکتی ہے۔

خیال رہے کہ حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ جذباتی ایشوز پر ووٹ مانگنے کے بجائے ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر ووٹ مانگتی ہے اور عوام کو اس کے کاموں پر پورا بھروسہ ہے۔