ماریہ کی کہانی
25 سالہ ماریہ ( جن کا نام ہم نے تبدیل کر دیا ہے) شادی کے بعد 2017 میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا سے نیویارک منتقل ہوئی تھیں۔ شوہر کی پرورش امریکہ میں ہوئی لیکن سسرال کا تعلق ماریہ کے گاؤں سے ہی ہے
شادی کے ایک ماہ تک ماریہ کے ساتھ سب کا سلوک قدرے بہتر تھا۔ مگر پھر ماریہ کے ساتھ خاندان والوں کا رویہ ایسا بدلا کہ مجھے اپنی کہانی سناتے ہوئے ان کے آنسو ہی نہیں تھم رہے تھے۔
شادی کے ایک ماہ بعد صرف ماریہ کے شوہر ہی نہیں بلکہ مبینہ طور پر ان کے سسر نے بھی کئی بار ان کا ریپ کیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “میرے سسر پہلے مجھے بولتے تھے کہ میرے ساتھ آ کر بیھٹو۔ پھر مجھے مالش کا بولنے لگا۔ میں سمجھی وہ مجھے بیٹی کی طرح سمجھتے ہیں۔ اس لیے ایسا بولتے ہیں۔ پھر دو مہینے بعد انہوں نے میرے ساتھ زبردستی کی۔ میرا ریپ کیا۔ اس کے بعد جب بھی ان کا دل چاہتا وہ میرا ریپ کرتے۔ میں بھاگنے کی کوشش کرتی تو وہ مجھے لاتوں اور بیلٹ سے مارتے تھے۔”
انہوں نے مزید بتایا، “وہ کہتے تھے کہ وہ مجھے جان سے بھی مار دیں تو کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ ایسا ہی نہ کر دیں۔ میرا شوہر شرابی تھا۔ دوسری لڑکیوں کو گھر لاتا تھا۔ میرے شوہر، ساس سب کو پتا تھا، مگر کسی نے میرے سسر کو نہیں روکا۔ میرے سسر نے مجھے اپنی بہو کی بجائے جنسی غلام بنا کر رکھا ہوا تھا۔”
ماریہ نے اب ایک غیر سرکاری شیلٹر ہوم ایکنا یا ’اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ‘ میں پناہ لے رکھی ہے۔ امریکہ بھر میں اس ادارے کے 17 شیلٹر ہومز ہیں۔ یہ گروپ مسلمانوں کے حقوق کے تخفظ کے لیے کام کرتا ہے۔
میڑک پاس ماریہ آج کل ایک فاسٹ فوڈ شاپ میں کام کر رہی ہیں، لیکن انگریزی بولنے میں دقّت کی وجہ سے کوئی بھی نوکری زیادہ دیر نہیں چل پاتی۔ وہ انصاف حاصل کرنے کے لیے ایکنا کی مدد سے اپنے سسرال کے خلاف مقدمے کی پیروی کر رہی ہیں۔
ماریہ نے بتایا، “مجھے کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ماں باپ سے بھی بات کرنے پر پابندی تھی۔ جب آہستہ آہستہ انہیں یہ ڈر لگنا شروع ہوا کہ کہیں میں باہر کسی کو یہ سب کچھ بتا نہ دوں تو وہ مجھے جھوٹ بول کر پاکستان لے گئے اور وہاں جا کر طلاق دے دی اور پورے گاؤں میں یہ مشہور کر دیا کہ میں انگریزوں کے ساتھ غلط کام کرتی تھی۔ میں اسی لیے واپس آئی ہوں کہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لے سکوں۔ ان لوگوں نے نہ مجھے یہاں رہنےکے قابل چھوڑا ہے اور نہ واپس گاؤں جانے کے۔”
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’سکھی‘ کے مطابق امریکہ آنے والی ہر پانچ میں سے دو جنوبی ایشیائی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔
جب کہ 2014 اور 15 کے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں بھارتی اور پاکستانی گھرانوں میں صرف اس ایک سال میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں چھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔
روبینہ کی کہانی
ان خواتین میں روبینہ (ان کا نام بھی تبدیل کیا گیا ہے) بھی شامل ہیں۔ 16 برس کی عمر میں ان کا نکاح ہوا، وہ 18 سال کی تھیں جب شوہر انہیں یہاں امریکہ لے آئے۔ شوہر کا خاندان لاہور سے ہے، مگر ان کی پیدائش اور پرورش امریکہ میں ہوئی۔
انہوں نے کہا، “شوہر کسی اور کو پسند کرتا تھا۔ گھر والوں نے زبردستی اس کی شادی مجھ سے کروائی۔ مجھے یہ سب معلوم نہیں تھا۔ شوہر مجھ سے بات بھی نہیں کرتا تھا۔ ہماری بیٹی کی پیدائش بھی اس کا دل نرم نہ کر سکی۔”
وہ بولیں، “میرے سسرال میں جوائنٹ فیملی سسٹم تھا۔ انہوں نے مجھے قید کر کے رکھا ہوا تھا۔ میں ایک نوکر سے زیادہ کچھ نہیں تھی ان کے لیے۔ مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ میرے اٹھنے بیھٹے پر ان کا کنڑول تھا۔ میرے باہر جانے پر پابندی تھی۔ گھر والوں سے بات نہیں کرنے دیتے تھے۔ میں ایسی گھٹن میں رہ کر جیسے پاگل ہوتی جا رہی تھی۔“
روبیہ کی بیٹی کی عمر اب چار برس ہے اور وہ اپنی بیٹی کے مستقبل اور جائز حقوق لینے واپس امریکہ آئی ہیں۔
روبینہ ایکنا شیلٹر ہوم میں رہتی بھی ہیں اور گھریلو تشدد کی متاثرین کی ہیڈ کے طور پر کام بھی کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں، “جس کرب سے میں گزری ہوں، میں نہیں چاہتی ایسا اور لڑکیوں کے ساتھ بھی ہو، اسی لیے میں اس شیلٹر ہوم میں کام کرتی ہوں اور ان متاثرہ خواتین کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں ان کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔”
ایک عرصے تک یہاں امریکہ کی جنوبی ایشیائی کمیونٹی، خواتین کے خلاف ان جرائم کو کسی حد تک دباتی آئی ہے، مگر یہاں آنکھ کھولنے والی ان کی اگلی نسل میں اپنے ساتھ ہونے والی جسمانی اور ذہنی زیادتیوں کو رپورٹ کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جنس کی بنیاد پر خواتین کے ساتھ ہونے والے جرائم کے خلاف جنوبی ایشیائی خواتین کی مہم بھی زور پکڑ رہی ہے۔