بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی مُبینہ پامالیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران پولیس نے استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے درجنوں کارکنوں اور رہنماؤں کو حراست میں لے لیا ہے یا انہیں ان کے گھروں میں نظر بند کردیا ہے۔
پیر اور منگل کی درمیانی شب پولیس نے کئی سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے گھروں پر ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے۔
پولیس حکام نے چھاپوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی کارکنوں کو امن و امان برقرار رکھنے کی غرض سے حفظِ ماتقدم کے طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔
اس سے پہلے پولیس نے سرکردہ مذہبی اور سیاسی رہنما میر واعظ عمر فاروق کو سرینگر میں ان کے گھر میں نظر بند کردیا تھا۔
ایک اور سرکردہ آزادی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی پہلے ہی نظر بند کیے جاچکے ہیں۔ پولیس نے ان کے ساتھی اور جموں کشمیر لبریشن فرںٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو بھی گرفتار کرکے سرینگر کے ایک پولیس تھانے میں قید کردیا تھا جہاں سے انہیں پیر کو علاج کے لیے شہر کے ایک بڑے اسپتال منتقل کردیا گیا۔
ان تینوں رہنماؤں پر مشتمل 'مشترکہ مزاحمتی اتحاد' نے گزشتہ اختتامِ ہفتہ یہ اعلان کیا تھا کہ انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 3 دسمبر سے 'ہفتۂ انسانی حقوق' منایا جائے گا۔
رہنماؤں نے کہا تھا کہ ہفتے کے دوران ریاست میں بھارتی فوج اور دوسری سرکاری فورسز کی طرف سے شہریوں پر روا رکھے جانے والی مبینہ زیادتیوں پر احتجاجی ریلیاں منعقد کی جائیں گی اور ہر شام کو مساجد کے باہر اور دوسرے مرکزی مقامات پر موم بتیاں جلا کر وادی میں انسانی حقوق کی ابتر صورتِ حال کو اجاگر کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ انسانی حقوق کا عالمی دن ہر سال 10 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔
اتحاد نے سول سوسائٹی کی تنظیموں، وکلا، تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کی انجمنوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنے اپنے طور پر انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں کے خلاف جلسے جلوسوں کا اہتمام کریں۔
اتحاد کی اپیل پر پیر کو تاجروں کی ایک تنظیم نے ریاست کے گرمائی صدر مقام سرینگر کی سڑکوں پر احتجاجی جلوس نکالا۔
بعد ازاں پیر کی شام سرینگر اور وادئ کشمیر کے بعض دوسرے علاقوں میں 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' کے کارکنوں اور حامیوں نے مشعل بردار جلوس نکالے اور مرکزی مقامات پر موم بتیاں جلاکر شورش زدہ ریاست میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں پر احتجاج ریکارڈ کرایا۔
بھارتی حکام اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ مسلح افواج اور دوسرے سکیورٹی دستوں سے وادی میں انسانی حقوق کی پامالیاں سرزد ہو رہی ہیں۔
حکام کے بقول سکیورٹی فورسز ریاست میں گزشتہ 30 برس سے جاری تشدد اور 'دہشت گردی' پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں جس کے دوراں ان سے جا بجا چوک یا قاعدے کی خلاف ورزی ہوجاتی ہے جس کا فوری نوٹس لیا جاتا ہے۔
حکام کا موقف ہے کہ قاعدے کی خلاف ورزی کرنے اور ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کرنے کی پاداش میں فوج اور دوسرے سکیورٹی اداروں کے درجنوں اہلکاروں کو مروج قانون کے تحت سزائیں دی گئی ہیں۔
لیکن وہ اس بارے میں تفصیلات ظاہر کرنے سے یہ کہہ کر انکار کرتے آئے ہیں کہ اس سے نامسائد حالات اور خطرات میں گھرے سکیورٹی اہلکاروں کے حوصلے پست ہوں گے۔
انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں بھارتی حکومت پر اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں مظاہرین کے خلاف چھرے والی بندوقیں کا استعمال فوری طور پر روکنے اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (افسپا) کو واپس لینے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں۔
'افسپا' کے تحت فوج کو ریاست میں شورش زدہ حالات سے نمٹنے کے لیے بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔
اس قانون کو ریاست میں 28 سال پہلے مقامی مسلمانوں کی طرف سے مسلح بغاوت کے آغاز پر لاگو کیا گیا تھا۔ لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی کے مرتکب فوجی سزا سے بچنے کے لیے 'افسپا' کی آڑ لیتے چلے آئے ہیں۔