رسائی کے لنکس

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں اغوا کے تازہ واقعات


فائل
فائل

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیان میں نامعلوم مسلح افراد نے تین اور شہریوں کو اغوا کر لیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق، مسلح افراد ہفتے کو علی الصبح شوپیان کے سعدہ پورہ گاؤں میں ایک نانبائی کی دکان پر نمودار ہوئے اور پھر وہاں سے تین نوجوانوں کو اغوا کرکے لے گئے۔

اغوا کئے گئے ان شہریوں کی شناخت فاروق احمد، شاہد احمد گنائی اور حزیف احمد کوٹے کے طور پر کی گئی ہے۔

پولیس ذرائع نے اغوا کاری کے اس واقعے کے لئے عسکریت پسندوں کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ لیکن، بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم کسی بھی عسکری تنظیم نے تا حال شہریوں کو اغوا کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

یہ واقعہ شوپیان ہی کے ایک اور گاؤں صف نگری میں ایک نوجوان ندیم منظور کے اغوا اور قتل کے صرف 36 گھنٹے کے بعد پیش آیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ڈالی گئی ایک ویڈیو میں مسلح افراد کو ندیم منظور پر نزدیک سے گولیاں چلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو میں کسی نامعلوم شخص کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ مقتول نے اس ماہ کے آغاز پر اپنے آبائی گاؤں میں عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے جنگجوؤں کی موجودگی کی اطلاع بھارتی حفاظتی دستوں کو دی تھی جس کے بعد طرفین کے درمیان ایک جھڑپ ہوئی تھی جس میں دو عسکریت پسند مارے گئے تھے۔

لیکن، پولیس نے اس بات کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے کہ یہ نوجوان عسکریت پسندوں کے خلاف کئے گئے کسی آپریشن کا حصہ تھا۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر منیر احمد خان نے کہا ہے کہ، "وہ بالکل بے گناہ تھا۔ اب جب اُس کو ہلاک کیا جاچکا ہے وہ اپنی بے گناہی کیسے ثابت کرے گا"۔

واضح رہے کہ بھارتی حٖفاظتی دستوں نے حالیہ ہفتوں کے دوران عسکریت پسندوں کے خلاف کئی کامیاب آپریشن کئے ہیں۔ ان آپریشنز کے دوران صرف اکتوبر کے مہینے میں 30 سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔ اکثر ہلاکتیں شوپیان سمیت جنوبی کشمیر کے اضلاع میں پیش آئیں۔ اس دوران بارہ عام شہری بھی لقمہ اجل بن گئے تھے۔

عہدیداروں کے مطابق، عسکریت پسندوں کے خلاف یہ کامیابیاں مختلف سیکیورٹی فورسز کے درمیان "زیادہ سے زیادہ اور بہتر تال میل" اور عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کے بارے میں "بہتر اور مخصوص سراغرساں معلومات" کی فراہمی کے نتیجے میں ممکن ہو سکی ہیں۔ تاہم، بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم سب سے بڑی مقامی عسکریت تنظیم حزب المجاہدین کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کو، اس کے بقول، ''بعض عاقبت نا اندیش افراد کی طرف سے کی جانے والی مخبری کے نتیجے میں بھی بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے''۔

سوشل میڈیا میں ڈالی گئی ایک آڈیو میں حزب المجاہدین نے ایسے لوگوں سے اس حرکت سے باز آنے کے لئے کہا تھا۔ حزب المجاہدین کے مطابق یہ لوگ انعامات کے لالچ میں آکر عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کے بارے میں اطلاعات کا افشا کرتے ہیں۔

اس دوران ہفتے کو مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں ایک عام ہڑتال کی گئی۔ ہڑتال کے لئے اپیل استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے کی تھی۔ شورش زدہ ریاست میں ہفتے کو نو مراحل میں کرائے جانے والے پنچایتی انتخابات کے پہلے مرحلے پر47 بلاکوں میں ووٹ ڈالے گئے۔

'مشترکہ مزاحمتی قیادت' کا استدلال ہے کہ بھارتی آئین کے تحت ہونے والا کوئی بھی انتخابی عمل کشمیریوں کے مطالبہ حقِ خود ارادیت کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ اس نے پیچایتی انتخابات کرانے کے حکومت کے فیصلے کے خلاف ہڑتال کرنے کی اپیل کی تھی۔ ہڑتال کی وجہ سے وادی کشمیر کے کئی علاقوں میں کاروبارِ زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا۔ تاہم، چند مقامات پر ہڑتال کی اپیل کا جزوی اثر مشاہدے میں آیا۔

شوپیاں سے موصولہ تازہ اطلاع میں کہا گیا ہے کہ اغوا کئے گئے باقی دو افراد کو کوئی گزند پہنچائے بغیر رہا کر دیا گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG