شام کے دارالحکومت دمشق کے جنوبی نواحی علاقے میں ہونے والے تین دھماکوں میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق تینوں دھماکے اتوار کو دمشق میں واقع پیغمبرِ اسلام کی نواسی سیدہ زینب کے مزار کے قریب ہوئے۔
حملے میں ہلاک ہونے والوں میں شامی حکومت کی حمایت میں لڑنے والے 25 جنگجو بھی شامل ہیں جب کہ حکام نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'سانا' کے مطابق وزارتِ داخلہ کے حکام نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے اتوار کی شام سیدہ زینبیہ نامی علاقے میں ایک مصروف بس اڈے پر کار بم دھماکہ کیا۔ جائےو اقعہ پر امدادی سرگرمیوں کے دوران ہی دو خود کش حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سےاڑا لیا جس سے، حکام کے مطابق، زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔
شام میں تشدد کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے دعویٰ کیا ہے کہ دو خود کش حملہ آوروں نے شیعہ جنگجووں کو لے جانے والی ایک فوجی بس کو نشانہ بنایا ہے۔
آبزرویٹری کے مطابق جس علاقے میں دھماکے ہوئے ہیں وہاں لبنانی شیعہ تنظیم 'حزب اللہ' اور صدر بشار الاسد کی اتحادی عراقی اور ایرانی شیعہ ملیشیاؤں کے جنگجو بڑی تعداد میں مقیم ہیں۔
شام اور عراق میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش نے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ شدت پسند تنظیم کی ایک خبر رساں ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے جنگجووں نے دمشق میں شیعہ ملیشیاؤں کے سب سے مضبوط اور اہم گڑھ کو نشانہ بنایا ہے۔
دارالحکومت دمشق کے سیدہ زینبیہ نامی اس ضلعے میں خانہ جنگی کے ابتدائی برسوں کے دوران حکومت مخالف باغیوں اور سرکاری فوج کے درمیان شدید جھڑپیں ہوا کرتی تھیں لیکن بعد ازاں شامی فوج نے شیعہ مسلح ملیشیاؤں کے تعاون سے اس علاقے پر اپنا کنٹرول مستحکم کرلیا تھا۔
مبصرین کے مطابق عراق، ایران، لبنان اور دیگر علاقوں سے اسد حکومت کی حمایت میں لڑنے کے لیے شام آنے والے شیعہ جنگجووں کا پہلا ٹھکانہ سیدہ زینبیہ کا یہ علاقہ ہی ہوتا ہے جہاں سے انہیں شام کے مختلف محاذوں پر سنی باغیوں کے خلاف لڑائی کے لیے روانہ کیا جاتا ہے۔
دمشق میں اتوار کو ہونےو الے دھماکے ایسے وقت ہوئے ہیں جب شام کے تنازع کے حل کے لیے جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی ثالثی میں امن مذاکرات جاری ہیں جن میں شرکت کے لیے شامی حزبِ اختلاف کے نمائندہ وفود جنیوا پہنچ رہے ہیں۔