افغانستان میں سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز طالبان کی طرف سے ہونے والے حملے میں افغان فوج کے کم سے کم 28 اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔
افغانستان میں سخت سردی کے باوجود شمالی اور شمال مشرقی صوبوں میں گذشتہ ہفتے کے دوران طالبان کے حملے روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے ہیں، جن میں مجموعی طور پر 100 افغان فوجی ہلاک اور بہت سے زخمی ہو چکے ہیں۔
ایک افغان سرکاری اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ شمالی صوبے کندوز کے دشت ارچی ضلع میں واقی فوجی چوکی طالبان کے ایک بڑے حملے کی زد میں آ گئی، جس میں 13 فوجی ہلاک ہو گئے۔ صوبائی کونسل کے رکن فوزی ایفتالی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ حملے میں افغانستان کی فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور بہت سے فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔
پولیس کمانڈروں اور سرکاری ترجمان کا کہنا ہے کہ مزید 15 فوجی اس وقت ہلاک ہوئے جب طالبان نے بلخ اور تخار صوبوں میں حملے کیے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا کو بھیجے گئے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ تین صوبوں میں رات بھر جاری رہنے والے حملے میں افغانستان کے 50 فوجی ہلاک ہوئے۔
افغانستان کی وزارت دفاع نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس کی فوجوں نے ہوائی حملوں اور زمینی کارروائی کے دوران طالبان کے درجنوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔ تاہم، غیر جانبدار ذرائع سے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
امریکہ طالبان کے ساتھ امن سمجھوتہ طے کی کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن، بات چیت کا سلسلہ مسلسل جاری ہلاکت خیز کارروائیوں کے باعث تعطل کا شکار ہوتا رہا ہے۔ مذاکرات میں حالیہ ترین تعطل دو ہفتے قبل ہوا تھا جب طالبان نے کابل کے شمال میں بگرام میں امریکہ کے فوجی اڈے پر خود کش حملہ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں امریکہ نے فوری طور پر بات چیت روک دی تھی اور طالبان سے کہا تھا کہ وہ عارضی جنگ بندی پر رضامند ہو تاکہ بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کرتے ہوئے کوئی سمجھوتا طے کیا جا سکے۔
تاہم، طالبان نے پیر کے روز اعلان کیا کہ وہ حملے روکنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ طالبان نے اعتراف کیا کہ اس کی قیادت حملہ آور کارروائیاں کم کرنے کے امریکی مطالبے پر غور کر رہی ہے۔ طالبان نے اس بات کو بھی دہرایا ہے کہ وہ ملکی سطح پر جنگ بندی کے بارے میں گفتگو اس وقت کرے گا جب طالبان اور افغانستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔ تاہم، اس کا اصرار ہے کہ ایسے مذاکرات جبھی ہوں گے جب افغانستان سے امریکہ سمیت تمام غیر ملکی فوجیں واپس چلی جائیں گی۔