ایران میں اسکول طالبات کو زہر دینے کے واقعات کے باعث ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور تاحال حکومت اس کے ذمے داران کا تعین نہیں کرسکی ہے۔
گزشتہ تین ماہ کے دوران ایران میں سینکڑوں طالبات کو سانس لینے میں تکلیف کی شکایت پر علاج کے لیے مختلف اسپتالوں میں لایا گیا اور بعض بچیوں کو طبیعت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے داخل بھی کیا گیا۔
ان میں سے زیادہ تر واقعات مذہبی طور پر مقدس تصور ہونے والے شہر قم اور جنوبی تہران میں پیش آئے ہیں۔
اتوار کو ایران کی حکومت نے ان واقعات کو لڑکیوں کے اسکول بند کرانے کے لیے کیے گئے حملے قرار دیا ہے۔ ایران کے نیم سرکاری خبر رساں ادارے ’تسنیم‘ کی رپورٹ کے مطابق منگل کی دوپہر صوبہ تہران کے شہر پردیس میں واقع خیام گرلز اسکول کی متعدد طالبات کو زہر دیا گیا تھا۔
اس رپورٹ کے مطابق ان میں سے 35 طالبات کو اسپتال لے جایا گیا۔ پردیس کے علاوہ قم میں یہ واقعات گزشتہ برس نومبر سے جاری ہیں جن میں سینکڑوں بچیاں متاثر ہوچکی ہیں۔
زہر خورانی کے یہ واقعات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب گزشتہ پانچ ماہ سے ایران میں احتجاجی لہر جاری ہے۔ یہ احتجاجی لہر گزشتہ برس 16 ستمبر کو شروع ہوئی تھی جب 22 سالہ مہسا امینی نامی خاتون ایران کی اخلاقی پولیس گشتِ ارشاد کی تحویل میں ہلاک ہوگئی تھیں۔
ایران کی حکومت کے مطابق اب تک ان مظاہروں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ ہزاروں مظاہرین کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ایرانی حکومت ان مظاہروں کو ’فسادات‘ قرار دیتی ہے۔
SEE ALSO: ایران میں حجاب اور لباس کی پابندیاں نافذ کرنے والی پولیس کتنی طاقت ور ہے؟اتوار کے روز مغربی ایران کے شہر بروجرد کے گرلز اسکول کی طالبات کو بھی زہر خورانی کے واقعے کے بعد اسپتال لایا گیا۔ یہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بروجرد میں ہونے والا چوتھا ایسا واقعہ تھا۔
ایران کے پولیس چیف احمد رضا رادان نے منگل کو کہا تھا کہ زہر دینے کے مشتبہ واقعات کی تحقیقات کی جارہی ہیں جب کہ ایران کی پارلیمنٹ میں بھی یہ مشتبہ 'حملے' زیرِ بحث آئے۔ سرکاری خبر رساں ادارے ’ارنا‘ کے مطابق اجلاس میں وزیرِ صحت بہرام عین اللہی بھی شریک ہوئے۔
’ارنا‘ نے پارلیمنٹ کے اسپیکر باقر قالیباف کے حوالے سے بتایا ہے کہ قم اور بروجرد کے حکام طالبات کو زہر دینے کے واقعات سے نمٹنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔
پولیس چیف کے مطابق تاحال اس معاملے میں کوئی گرفتاری نہیں ہوئی تاہم پولیس کی ترجیح اس معاملے کی جڑ تک پہنچنا ہے اور جب تک اس بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آتیں اس وقت تک یہ طے نہیں کرسکتے کہ یہ معاملہ داخلی ہے یا بین الاقوامی۔
SEE ALSO: ایران میں کب کب حجاب احتجاج کی وجہ بنا؟ایران میں ملک گیر تشویش
اتوار کو ایران کے نائب وزیرِ صحت یونس پناہی نے کہا تھا کہ قم میں بعض لوگوں نے گرلز اسکول بند کرانے کے لیے طالبات کو زہر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ارنا‘ کے مطابق یونس پناہی کا دعویٰ تھا کہ قم میں اسکول کے طلبہ کو زہر دینے کے واقعات بعض لوگوں کی ان کوششوں کا حصہ ہیں جس کے تحت وہ لڑکیوں کے تعلیمی ادارے بند کرانا چاہتے ہیں۔
البتہ یونس پناہی نے واضح نہیں کیا تھاکہ وہ کون افراد یا گروہ ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم روکنے کے لیے طلبہ کو زہر دینے کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
نومبر میں ہونے والے ایسے ہی واقعات کے بعد ایران میں ملک گیر سطح پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
شہری حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے کارکنان ان واقعات کے ذمے داران کا موازنہ افغان طالبان اور بوکو حرام سے کررہے ہیں۔
گزشتہ ماہ طلبہ کی زہر خورانی کے بعد قم کے گورنر ہاؤس کے باہر متاثرہ خاندانوں نے احتجاج کیا تھا اور واقعات کے ذمے داروں کے تعین کا مطالبہ کیا تھا۔
اس احتجاج کے اگلے دن حکومتی ترجمان علی بہادری جہرمی نے کہا تھا کہ خفیہ ادارے اور وزارتِ تعلیم زہر خورانی کے اسباب جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے پراسیکیوٹر جنرل محمد جعفر منتظری نے ان واقعات کی عدالتی تحقیقات حکم دیا تھا۔
قم سے تعلق رکھنے والے قانون ساز احمد امیری فرحانی نے طالبات کو زہر دینے کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’غیر عقلی اقدام‘ قرار دیا ہے۔
انہوں نے قم کے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کریں۔
منگل کو سابق اصلاح پسند نائب صدر معصومہ ابتکار نے ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ خواتین مخالف شدت پسند عناصر کو قابو کیا جائے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔