اٹلی کے کوسٹ گارڈ کے عملے نے درجنوں غیر قانونی تارکین وطن کو ڈرامائی طور پر امدادی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے اس وقت بچا لیا، جب وہ اٹلی کے جزیرے لیمپڈوسا کے ساحل پر موجود خطرناک اور گہری چٹانوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب شمالی افریقہ سے سمگلروں کی مدد سے فرار ہونے والے تارکین وطن کی تین کشتیاں الگ الگ واقعات میں خراب موسم کی وجہ سے اپنے راستے سے بھٹک گئیں۔ حادثے میں بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ سمندرمیں پھنسنے والی کشتیوں میں سوار 30 تارکین وطن لاپتہ ہیں، جبکہ امدادی کارکنوں نے سمندر سے تین لاشیں نکال لی ہیں۔
یہ ایک خطرناک امدادی کارروائی تھی، جس میں حصہ لینے والے دو ہیلی کاپٹروں نے انتہائی تیز سمندری ہواوں میں ایک ایک کر کے ایک بچے اور دو حاملہ عورتوں سمیت دیگر تارکین وطن کی جان بچائی، جو دو دن سے اٹلی کے لیمپڈوسا جزیرے کے ساحل پر انتہائی تنگ اور گہری سمندری چٹانوں میں پھنسے ہوئے تھے ۔ ان تارکین وطن کی کشتی کو گزشتہ جمعے کے روز حادثہ پیش آیا تھا ۔
اطالوی کوسٹ گارڈ کے ارکان نےتین کشتیوں میں سوار 57 تارکین وطن کو طوفانی سمندر سے بچانے کے لئے رسی کی سیڑھیاں استعمال کیں ۔
امدادی کارروائی کرنے والے الپائن اسسٹنس گروپ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ چٹان پر دو راتوں سے پھنسے تمام 34 تارکین وطن کو بچا لیا گیا ۔ اس گروپ کے ماہرین نے اطالوی ائیر فورس کے ایک ہیلی کاپٹر سے لٹکتے ہوئے ان تارکین وطن کو بچایا۔
تارکین وطن ، جن میں سے کچھ نے نیکریں اور ہوائی چپلیں پہنی ہوئی تھیں، اس وقت تک اپنے امدادی کارکنوں سے لپٹے رہے جب تک انہیں کھینچ کر ہیلی کاپٹر میں سوار نہیں کرا دیا گیا۔ کچھ کو بچانے کے لئے فائر فائٹرز کے ایک ہیلی کاپٹر نے مدد کی ۔
یہ تارکین وطن جوشمالی افریقہ سے اسمگلروں کی تین کشتیوں میں روانہ ہوئے تھے، الگ الگ واقعات میں سمندری طوفانوں میں اپنی کشتیاں الٹنے کے سبب اختتام ہفتہ سمندر میں واقع ا ایک چٹان پر پھنس گئے تھے۔
لامپدوسا کی ایک نرس نے اٹلی کے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ طبی عملے نے دونوں حاملہ عورتوں کا معائنہ کیا ہے ۔ خواتین پانی کی کمی اور زکام میں مبتلا تھیں لیکن وہ نفسیاتی طور پر زیادہ پریشان تھیں ۔
SEE ALSO: لوگوں کو کمزور کشتیوں پر سفر سے روکنا یورپ کی کوئی اولین ترجیح نہیں؟
ہیلی کاپٹر کی یہ کارروائی اس کے بعد کی گئی جب کوسٹ گارڈ نے یہ اندازہ لگایا کہ سمندر کی طوفانی لہروں کے باعث امدادی کشتیاں چٹانوں تک بحفاظت نہیں پہنچ سکیں گی ۔ اس سے ایک روز قبل ، اطالوی ہیلی کاپٹروں نے چٹان میں پھنسے تارکین وطن کے لیے فضا سے خوراک ، پانی اور گرم کمبل پھینکے تھے ۔
اقوام متحدہ کی مائگریشن ایجنسی، آئی او ایم کے ایک ترجمان فلاویو دی دی گیاکومو ، Flavio Di Giacomo نے بتایا کہ 2023 میں تیونس یا لیبیا سے روانہ ہونے والی کشتیوں میں بحیرہ روم عبور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کل 1814 تارکین وطن اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ۔
اطالوی ریڈ کراس کے ایک عہدے دار ، Ignazio Schintu نے بتایا کہ اتنے بہت سے لوگوں نے یہ سفر کیا ہے کہ اس وقت لامپدوسا کی عارضی پناہ گاہ میں 2450 تارکین وطن موجود ہیں جب کہ گنجائش صرف 400 کی ہے ۔
انہوں نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ جب تیز ہوائیں بند ہو جائیں گی اور سمندر پرسکون ہو جائے گا تو اس ہجوم کو کم کرنے کے لیے ان میں سے سینکڑوں کو سسلی بھیجنے کے لیے فیری سروس بحال کر دی جائے گی ۔
انہوں نے بتایا کہ زندہ بچائے جانے والے تارکین وطن میں سے کچھ کا تعلق سینیگال، گیمبیا ، کیمرون اور آئیوری کوسٹ سے ہے۔
اطالوی کوسٹ گارڈ نے بتایا ہے کہ کھلے سمندر میں ڈوبنے والی دو کشتیوں کے بارے میں خیال ہے کہ وہ تیونس کی ایک بندر گاہ سفکس سے جمعرات کو روانہ ہوئی تھیں جب سمندر میں موسم کی صورتحال اچھی نہیں تھی ۔
آئی او ایم کے ترجمان کا کہنا تھا کہ لیبیا کے ساحلوں سے سمندری سفر زیادہ خطرناک ہوا کرتا تھا لیکن کیوں کہ تیونس کے اسمگلر خاص طور پر خستہ کشتیاں استعمال کر رہے ہیں اس لیے وسطی بحیرہ روم کا راستہ مزید ہلاکت خیز ہوتا جا رہاہے ۔
SEE ALSO: کشتیوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش میں 900 تارکین وطن ہلاک ہوئے: تیونسسسلی سے ایک آڈیو میسیج میں اقوام متحدہ کی مائگریشن ایجنسی، آئی او ایم ترجمان فلاویو دی گیاکومو ، (Flavio Di Giacomo) نے کہا کہ تارکین وطن تیونس سے کمزور لوہے کی کشتیوں میں سوار ہو کر روانہ ہورہے ہیں جو 24 گھنٹے کے بعد دو ٹکڑے ہوجاتی ہیں اور تارکین وطن سمندر میں گر جاتے ہیں ۔
اطالوی وزیر اعظم جارجیو میلنی (Giorgia Meloni) نے ، جن کی دائیں بازو کی حکومت میں تارکین وطن کی مخالف لیگ پارٹی، شامل ہے ، یورپی یونین سے کہا ہے کہ وہ تارکین وطن کی اسمگلنگ روکنے اور پکڑ دھکڑ کے لیےتیونس کے لیڈر کو امداد کے وعدوں کے ساتھ آمادہ کرنے کی کوشش میں اٹلی کے ساتھ شامل ہو ۔لیکن ابھی تک لگ بھگ روزانہ ہی تیونس کی بندرگاہوں سے کشتیوں کی روانگی کا سلسلہ جاری ہے ۔
(اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے )