ڈرامہ سیریل ’آخری اسٹیشن‘ جدوجہد کرنے والی سات خواتین کی کہانی

فائل

ڈرامے میں 7 خواتین لاہور سے روانہ ہونے والی ایک ٹرین کی زنانہ بوگی میں اپنے مشکل حالات اور زندگی کے تلخ حقائق ایک دوسرے کے ساتھ دلچسپ انداز میں شیئر کرتی ہیں۔

پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل سے نشر ہونے والا ڈرامہ سیریل ’آخری اسٹیشن‘ ایسی سات خواتین کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے جنہوں نے انتہائی مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے روشن مستقبل کی جانب سفر شروع کیا ہے۔

آمنہ مفتی کے تحریر کردہ اس ڈرامے کی ہدایت کاری سرمد سلطان کھوسٹ نے، جبکہ پروڈکشن ایک غیر سرکاری تنظیم، ’کشف فاؤنڈیشن‘ نے کی ہے۔ یہ فاؤنڈیشن اس سے پہلے بھی معاشرتی اور سماجی مسائل کو اجاگر کرنے کے موضوع پر ڈرامہ سیریل تیار کر چکی ہے۔

ڈرامہ سیریل ’آخری سٹیشن‘ سات اقساط پر مشتمل ہے، جس میں جسم فروشی، گھریلو تشدد، مالی مشکلات، ایچ آئی وی/آیڈز جسے معاشرتی مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔

اس ڈرامے میں 7 خواتین لاہور سے روانہ ہونے والی ایک ٹرین کی زنانہ بوگی میں اپنے مشکل حالات اور زندگی کے تلخ حقائق ایک دوسرے کے ساتھ دلچسپ انداز میں شیئر کرتی ہیں۔

جب آمنہ مفتی سے پوچھا گیا کہ اُنھوں نے خواتین کے مسائل جسے موضوع کا انتخاب کیوں کیا، تو آمنہ مفتی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’میں بھی اِسی معاشرے کا ایک حصہ ہوں اور خواتین کے حوالے سے ہمارا معاشرہ غیر متوازن ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’حالات پہلے بھی کوئی زیادہ اچھے نہیں تھے۔ لیکن اس میں مزید بگاڑ آتا گیا‘‘۔ بقول اُن کے، ’’صورت حال وقت کے ساتھ خراب ہوتی چلی گئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو میرے بچپن سے اب تک کے معاشرے میں خواتین کے لئے مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔‘‘

آمنہ مفتی نے کہا کہ ’’میں جب خواتین کے حوالے سے ڈرامہ لکھتی ہوں تو ان کو پزیرائی بھی ملتی ہے، کیونکہ خواتین کے مسائل ٹی وی سکرین پر پسند کیے جاتے ہیں۔ دیگر موضوعات پر بھی لکھتی ہوں۔ لیکن، میں خواتین کے موضوعات پر اس لئے قلم اٹھاتی ہوں تاکہ ان مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے اور معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی آئے۔ شائد صنفی عدم مساوات ہمارے آنے والی نسل میں ختم ہو جائے۔‘‘

Your browser doesn’t support HTML5

’آخری اسٹیشن‘، خواتین کے مسائل پر مبنی ڈرامہ سیریل

آمنہ کہتی ہیں کہ ’’اس قسم کے ڈراموں سے معاشرے کے افراد کے رویوں میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔ ادیب جب کچھ لکھتا ہے اور جب وہ ایک ڈرامے کی شکل میں نشر ہوتا ہے تو اس کے معاشرے پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں‘‘۔

انھوں نے کہا کہ ’’جب ڈرامہ ناخواندہ افراد دیکھتے ہیں تو ان کو اپنا رویہ نظر آتا ہے۔ جیسا کہ ’آخری اسٹیشن‘ میں؛ جو ساتوں کہانیاں ایسے مسائل پر مبنی ہیں جو ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں‘‘۔

آمنہ مفتی نے کہا کہ کہیں نہ کہیں ان کو اپنا طرز عمل نظر آئے گا، کیونکہ اپنا رویہ خود نظر نہیں آتا، جب تک وہ ایک کہانی کے روپ میں نظر نہ آئے؛ جس سے معلوم ہوگا کہ ہمارا رویہ اس انتہا تک بھی جا سکتا ہے۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’عمومی طور پر، مردوں کا خیال یہ ہوتا ہے کہ عورت گھر کو قائم رکھنے کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دے سکتی ہے۔ پھر جب وہ اس قسم کے کہانیوں پر مبنی ڈرامے دیکھتی ہے تو ایسی خواتین کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر حالات ایک حد سے زیادہ خراب ہوجائیں تو پھر معاملہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور پھر خاندان شکست و ریخت کا شکار ہوسکتا ہے۔‘‘

’آخری اسٹیشن‘ کی پہلی قسط میں بُرے شوہر کا کردار ادا کرنے والے ادکار، عدنان سرور نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس قسم کے ڈراموں سے ایسے مسائل کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول ہوجائے گی، جن پر ہمارے معاشرے میں عام طور پر بات نہیں کی جاتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آئے گی‘‘۔

آمنہ مفتی کا مزید کہنا تھا کہ اُنھوں نے دل کی گہرائی سے یہ چیزیں لکھی ہیں۔ اور یہ کہ وہ چاہتی ہیں کہ مستقبل میں مزید اچھے موضوعات پر قلم اٹھایا جائے۔ اُنھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ہمارے معاشرے پر بات کرنے سے ’’ایک مثبت تبدیلی آئے گی‘‘۔