|
امریکی نائب صدر کاملا ہیرس بدھ کے روز انڈیاناپلس میں تھیں۔ اس سے پہلے اتوار کو صدر بائیڈن نے 2024 کی انتخابی دوڑ سے الگ ہونے اور ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کے طور پر ہیرس کی نامزدگی کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ کاملا ہیرس کے لوگوں سے اولین رابطوں میں سے ایک ہے۔
پروگرام کے مطابق ہیرسSorority Inc. Zeta Phi Beta (ZPB) نامی کالج خواتین کی تنظیم کےدوسالہ کنونشن سے خطاب کریں گی۔
زیڈ بی پی ، 1920 میں ہیریس کی الما میٹر ہاورڈ یونیورسٹی میں قائم کی گئی۔ یہ ملک کی سب سے بڑی تاریخی طور پر زیادہ ترسیاہ فاموں کی تنظیموں میں سے ایک ہے - کالجوں اور یونیورسٹیوں میں صرف خواتین کی رکنیت کی حامل یہ وہ سماجی تنظیمیں ہیں جن کا مقصد دیگرامورکے ساتھ کمیونٹی، تعلیمی کامیابی اور کیریئر کی ترقی کو فروغ دینا ہے۔
SEE ALSO: صدارتی مہم: ٹرمپ اور ہیرس کے ایک دوسرے کے بارے میں سخت بیاناتاس ماہ کے شروع میں ڈیلس، ٹیکساس میں ہیرس نے ہاورڈ یونیورسٹی میں اپنی تنظیم Alpha Kappa Alpha Sorority Inc کے قومی کنونشن میں 20 ہزار ارکان اور سابق گریجوایٹس سے خطاب کیا تھا۔
ون ود بلیک ویمن( Win With Black Women) نامی تنظیم میں اعداد و شمار کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ تنظیم نے بائیڈن کے ہیرس کی حمایت کرنے کے چند گھنٹے بعد ایک زوم کال کی جس میں 44ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ گروپ نے کہا کہ اس نے ہیرس کی انتخابی مہم کے لیے صرف چند گھنٹوں میں 15 لاکھ سے زیادہ ڈالر جمع کیے۔
ون ود بلیک مین (Win With Black Men)نامی تنظیم نے بھی ایسی ہی کوشش کے ذریعے دس لاکھ سے زیادہ ڈالر، دس کروڑ ڈالر کی اس رقم میں اضافے کے طور پر دیے جو ہیرس کی انتخابی مہم نے پہلے 48 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں جمع کیے تھے
تنظیمیں اور نیٹ ورکس
تاریخی طور پر خواتین کی 9 تنظیمیں اور نیٹ ورکس ہیں۔ یہی تعداد مردوں کی تنظیموں کی بھی ہے جو "ڈیوائین نائین" کہلاتی ہیں۔
اسٹیو فلپس، ڈیموکریسی ان کلر نامی سیاسی میڈیا آرگنائزیشن کے بانی ہیں اور امریکی ووٹروں میں آبادی کے تنوع پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افریقی امریکی کمیونٹی میں ان تنظیموں اور نیٹ ورکس کی بہت اہمیت ہے۔
انہوں نے وائس آف امیریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ارکان اپنی پوری زندگی پرجوش، مضبوط اور باہم مصروف رہتے ہیں۔ چنانچہ یہ پہلے سے موجود اور باہم انتہائی مصروف گروپ تیزی سے انتخابی مہم کے لیے بھرپور وسائل کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے ایسا 2007 اور 2008 میں اوباما کے لیے دیکھا تھا اور مجھے توقع ہے کہ اسی تعداد میں ہیرس کے لیے بھی بڑے پیمانے پر عطیات جمع کیے جائیں گے اور رضاکارانہ پیش کش ہوگی۔‘‘
یہ تنظیمیں یا سوروریٹیز افریقی امریکی سیلبریٹیز تک پہنچنے کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسمینتھا این شیپرڈ، کورنیل یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ آف پرفارمنگ اینڈ میڈیا آرٹس کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور چئیر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ گروپ تیزی سے معروف شخصیات، سلیبریٹیز اور اعزازی ارکان کو شامل کر رہے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امیریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہالی ووڈ کے بڑے ناموں، کیری واشنگٹن، ویولا ڈیوس، جینفر لوئیس اور دیگر کی جانب سے ہیرس کی حمایت کے ساتھ ہی افریقی امریکی خواتین سلیبریٹیز کی بڑی تعداد کی سرگرمی کا آغاز ہو چکا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے منصب کے لیے ہیرس کے انتخاب لڑنے سے افریقی امریکی ووٹروں میں جو ڈیمو کریٹس کا کلیدی حلقہ ہے، جوش پیدا ہوا ہے جبکہ بائیڈن کے ٹکت پر سرِ فہرست ہونے کے وقت یہ جوش و خروش مانند پڑ گیا تھا۔ تاہم ہیرس پر آن لائن نسلی اور صنفی حملوں کی بوچھاڑ کے درمیان یہ لوگ بھی مقابلے کی تیاری کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
شیپرڈ کہتی ہیں کہ سیاہ فام خواتین کے لیے جو کوئی پلیٹ فارم رکھتی ہیں یہ اہم ہے کہ وہ مل کر کام کریں تاکہ اس صنفی امتیاز سے بالاتر ہو جائیں جس کا ہیرس کو سامنا کرنا پڑے گا۔
ہیرس پر پہلے ہی اس بارے میں تنقید ہو رہی ہے کہ انہوں نے بدھ کے روز اسرائیلی وزیرِ اعظم کے کانگریس سے خطاب کی صدارت کے بجائے وسکانسن جانے کو ترجیح دی۔
انڈیاناپلس سے ہیرس ٹکساس کے شہر ہیوسٹن جائیں گی جہاں وہ جمعے کو امیریکن فیڈریشن آف ٹیچرز سے خطاب کریں گی۔