امریکی صدر جو بائیڈن نے سعودی ولی عہد اور دیگر اعلی حکام سے جدہ میں ملاقات کے بعد مختصر پریس کانفرنس میں بتایا کہ سعودی عرب اسرائیل سے آنے اور جانے والی تمام شہری پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھولنے اور یمن میں جنگ بندی میں توسیع پر بھی رضامند ہو گیا ہے۔
صدر نے اس اقدام کو سعودی عرب اور اسرایئل کے درمیان تعلقات کومستقبل میں معمول پر لانے کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔
صدر بائیڈن کے دورے کے دوران ریاض اور ییروشلم میں براہ راست پروازوں کے لیے سعودی عرب کی رضامندی کو واشنگٹن کی اہم سفارتی کامیابی خیال کیا جا رہا ہے تاہم واشنگٹن پوسٹ اور انسانی حقوق کے کارکن محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات پر ان پر تنقید کر رہے ہیں۔
امریکی صدر پر صحافی جمال خشوگی کے قتل کے معاملے کو سعودی قیادت کے سامنے اٹھانے کے لیے خاصا دباؤ تھا۔ اور اس ملاقات پر ان پر کئی جانب سے فوری تنقید سامنے آئی ہے۔
صدر بائیڈن نے بتایا کہ انہوں نے بات چیت میں سب سے پہلے اسی معاملے کو موضوع بنایا۔ گزشتہ برس صدر نے امریکی انٹیلی جنس کی اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا حکم دیا تھا جس میں جمال خشوگی کے قتل کے لیے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔
صدر نے کہا کہ مذکرات کی میز پر انہوں نے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا اور سعودی قیادت کو باور کرایا کہ ایسا واقعہ دوبارہ ہونے کے سنگین نتائج ہوں گے۔ صدر بائیڈن کے بقول محمد بن سلمان نے انہیں بتایا کہوہ اس قتل کے لیے ذمہ دار نہیں اور یہ کہ انہوں نے ذمہ داران کو سزا دی ہے۔
صدر جو بائیڈن نے بتایا کہ اس بات چیت میں ایران سے سعودی عرب کو درپیش خطرات سے نمٹنے میں مدد دینے پر بات کی گئی۔ اور سعودی عرب نے تیل کی پیداوار کو بڑھانے اور امریکی ٹیلی کام ٹیکنالوجی اور ماحول دوست ٹیکنالوجی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری پر بھی اتفاق کیا۔
خبر رساں اداروں کے مطابق صدر بائیڈن جمعے کے روز اسرائیل اور فلسطین کی قیادت سے ملاقاتوں کے بعد جمعے کو جدہ پہنچے جہاں ان کی ملاقات ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ہوئی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق صدر بائیڈن کو سعودی عرب کے شاہ سلمان کے ساتھ ملاقات کرنا تھا لیکن ان کی خرابی صحت کے باعث اس ملاقات میں سعودی عرب کی نمائندگی کے لیے محمد بن سلمان موجود تھے۔
اس ملاقات کے فورا بعد واشنگٹن پوسٹ کے ایڈیٹر اور انسانی حقوق کے دیگر سرگرم کارکنوں کی جانب سے صدر بائیڈن پر تنقید سامنے آئی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے ایڈیٹر کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کا (کووڈ کے باعث) محمد بن سلمان کے ہاتھ کی مٹھی بنا کر ٹکرانا ایک مصافحے سے بھی بدتر عمل تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق صدر بائیڈن نے بہت محتاط اور نپے تلے انداز میں سعودی ولی عہد کے ساتھ ملاقات میں گفتگو کی۔ سعودی عرب کے ولی عہد وہ شخصیت ہیں جن پر ایک وقت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام کے ساتھ سخت تنقید کی جا رہی تھی اور امریکی انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ سعودی نژاد صحافی اور کالم نگار جمال خشوگی کے قتل میں محمد بن سلمان بظاہر ملوث ہیں۔ صدر بائیڈن نے بھی اپنی صدارتی مہم میں سعودی عرب کو ’ کم ذات‘ یا پاریہ قرار دیا تھا۔
تاہم تجزیہ کاروں نے اپنے حالیہ انٹرویوز میں وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں یہ کہا ہے کہ صدر بائیڈن جن حالات میں سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں انہیں امریکہ کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے سعودی عرب سے تیل کی پیداوار بڑھانے اور ایران سے درپیش مشترکہ خطرات کے سبب سٹریٹجک مفادات پر بھی گفتگو کرنا ہے۔ اور امریکہ ابراہم اکارڈ کے مطابق یہ بھی چاہتا ہے کہ اسرائیل کے، بشمول سعودی عرب کے، عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات استوار ہوں۔
SEE ALSO: سعودی عرب اسرائیل تعلقات کی بحالی بائیڈن انتظامیہ کی بڑی جیت ہو گی، تجزیہ کارمحمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات کے بعد صدر بائیڈن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ انہوں نے انسانی حقوق کے معاملے پرخاموشی اختیار نہیں کی ہے۔
’ میں نے محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات میں صحافی جمال خشوگی کے قتل کے معاملے پر گفتگو کی ہے کیونکہ ا مریکی صدر کی حیثیت سے انسانی حقوق کے معاملے پر خاموش رہنا ہماری اقدار کے خلاف ہے‘‘
تاہم نقادوں کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے صدر بائیڈن نے اپنے وعدوں کو بھلا دیا ہے۔
جمال خشوگی سعودی نژاد امریکی صحافی تھے اور سعودی حکومت کے بڑے ناقد خیال کیے جاتے تھے۔ انہیں دو اکتوبر 2018 میں اس وقت ہلاک کر دیا گیا تھا جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصلیٹ میں اپنی دوست کے ساتھ شادی کے کاغذات بنوانے کے لیے گئے تھے۔
صدر بائیڈن نے جدہ میں، اے پی کے مطابق، تین گھنٹے شاہی محل میں گزارے اور ان کے اس دورے کو محمد بن سلمان کے لیے ایک سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ وہ اپنا تشخص بہتر بنانے، سرمایہ کاروں کی توجہ سعودی عرب میں اپنی اصلاحات کی طرف مبذول کرانےاور سلطنت کی سکیورٹی سے متعلق خدشات کے پیش نظر امریکہ کے ساتھ تعلقات میں فروغ چاہتے تھے۔
دوسری جانب، اے پی کے مطابق، صدر بائیڈن نے بھی ایک ناگوار قدم کے طور پر ہہی سہی، لیکن ایسے میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ضروری سمجھا ہے جب امریکہ اور دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے سبب عوام پر معاشی دباو ہے اور ایران کے جوہری عزائم سے بھی واشنگٹن کو تشویش ہے۔
امریکہ، مبصرین کے مطابق، چاہتا ہے کہ دنیا میں تیل پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک سعودی عرب مزید تیل عالمی منڈیوں میں پہنچائے تاکہ تیل کی قیمتوں میں کمی ہو۔
صدر بائیڈن نے اس موقع پر یہ بھی بتایا کہ سعودی عرب نے یمن کے ساتھ جنگ بندی میں توسیع پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
تجزیہ کار کہہ چکے ہیں کہ صدر بائیڈن کا بذات خود ییروشلم سے براہ راست سعودی عرب جانا دونوں ملکوں کے درمیان پروازوں کی آمدوررفت کا راستہ کھول سکتا ہے اورسعودی عرب یمن میں جنگ بندی میں توسیع کے ذریعے واشنگٹن کی طرف سے ستائش حاصل کر سکتا ہے۔
سعودی عرب آمد سے قبل بائیڈن کی فلسطینی قیادت سے ملاقات
قبل ازیں امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعے کے روز مغربی کنارے کے علاقے میں کہا ہے کہ وہ اسرائیلی-فلسطینی تنازعے کے دو ریاستی حل کے لئے کئے جانے والے کام کی حمایت جاری رکھیں گے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ دور از کاربات لگ سکتی ہے۔ انہوں نے مغربی کنارے کے اپنے دورے میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کی۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ فلسطینی عوام کو تکلیف پہنچ رہی ہے۔ آپ اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ آپکی تکلیف۔ آپکا دکھ اورآپکی مایوسی محسوس کی جا سکتی ہے۔ امریکہ میں ہم بھی اسے محسوس کر سکتے ہیں۔
بائیڈن نے ایسے براہ راست مذاکرات کی ضرورت پرزوردیا جو اسرائیلی مملکت کے متصل ایک فلسطینی مملکت کے قیام پر منتج ہو سکیں۔ جسکی محفوظ اور ایسی سرحدیں ہوں جو فریقین کے درمیان اتفاق رائے سے قائم کی گئ ہوں۔ اور جہاں ہرفریق امن اورتحفظ کے ماحول میں رہ سکے۔
امریکی صدر نے کہا کہ فلسطینی عوام حق رکھتے ہیں کہ انکی اپنی مملکت ہو۔ آزاد۔ خود مختار۔ متحرک اور متصل ریاست۔
یہ دو ریاستیں دواقوام کے لئے ہوں۔ جن میں سے دونوں کی اس سرزمین پرگہری اورقدیم جڑیں ہیں۔ اور یہ دونوں وہاں ایکدوسری کے ساتھ امن اور تحفض کے ساتھ رہیں۔
محمودعباس نے اس موقع پر کہ کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہماری زمین پر اسرائیل کے قبضے کے معاملے کو حل کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل ایک ایسی مملکت کی حیثیت سےاپنی کارروائیاں جاری نہیں رکھ سکتا جو قانون سے بالا تر ہو۔
اس عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہ امریکہ ایک منصفانہ حل کے لئے کام کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ بائیڈن نے اپنے دورے میں فلسطینیوں کے لئے 31 کروڑ60 لاکھ ڈالر کی مالی امداد کا اعلان کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہر چند مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لئے فی الحال حالات سازگار نہیں ہیں۔ لیکن امریکہ اور میری حکومت فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے قرب لانے کی کوششیں ترک نہیں کریں گے۔
جمعرات کے روز بائیڈن نے اسرائیل کے نگراں وزیر اعظم یائرلیپڈ سے ملاقات کی تھی۔
ملاقات کے بعد دونوں لیڈروں نے اپنے اس اتفاق رائے کے اظہار کے لئے ایک نیوز کانفرنس کی تھی کہ وہ ایران کو ایک جوہری قوت بننے کی اجازت نہیں دیں گے۔
تاہم وہ اس بات پر متفق نہ ہو سکے کہ ایران کو جوہری قوت بننے سے روکنے کے لئے موثر ترین طریقہ کیا ہونا چاہیے ۔
بائیڈن نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سفارتکاری اس مقصد کو حاصل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
جبکہ لیپڈ کا کہنا تھا کہ ایران کو ایٹمی قوت بننے سےروکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اسے یہ باور کرا دیا جائے کہ اگر اس نے اپنا جوہری پروگرام ترک نہ کیا تو آزاد دنیا طاقت کا استعمال کرے گی۔
عالمی قوتوں اور ایران کے درمیاں دو ہزار پندرہ کے جوہری معاہدے کا سب سے بڑا مخالف اسرائیل تھا۔ اسوقت بائیڈن امریکہ کے نائب صدر تھے۔ بعد میں صدر ٹرمپ نے دو ہزار اٹھارہ میں امریکہ کو اس معاہدے سےالگ کر لیا تھا۔
فی الحال ایران اورامریکہ کو اس معاہدے میں واپس لانے کی کوششیں جاری ہیں.