امریکہ کے صدر جو بائیڈن بطور صدر اپنے پہلے دورۂ مشرقِ وسطیٰ پر بدھ کو اسرائیل پہنچ رہے ہیں۔ خطے میں ایران، اسرائیل کشیدگی اور عالمی تناظر میں صدر بائیڈن کے دورے کو نہایت اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔ دورے کے دوران امریکی صدر سعودی عرب بھی جائیں گے۔
بائیڈن بدھ کو اسرائیل کے شہر لد کے نواح میں واقع بن گوریون ہوائی اڈے پر اُتریں گے، جہاں اُن کے استقبال کے لیے بھرپور تیاریاں کی گئی ہیں۔
چار روزہ دورے کے دوران بائیڈن اسرائیل، سعودی عرب اور مغربی کنارے جائیں گے۔
امریکی صدر جدہ میں خلیج فارس تعاون کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت کریں گے جس میں سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، کویت، عراق، بحرین، اُردن اور مصر کے سربراہان بھی شریک ہوں گے۔
بائیڈن جمعے کو دورۂ اسرائیل مکمل کرنے کے بعد براہِ راست پرواز کے ذریعےجدہ پہنچیں گے۔امریکی صدر سعودی صحافی جمال خشوگی کے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کے بعد سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
سن 2019 میں اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی جو بائیڈن نے ایک خطاب کے دوران جمال خشوگی کی ہلاکت کے معاملے پر سعودی عرب کو 'تنہا' کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے اور عالمی صورتِ حال کے تناظر میں جو بائیڈن کا دورۂ سعودی عرب دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری لانے میں معاون ثابت ہو گا۔
بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے کو روس، یوکرین جنگ کے تناظر میں بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں اُتار چڑھاؤ کے علاوہ تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا تھا۔ سعودی عرب امریکہ کا خطے میں اہم اتحادی ہے اور تیل کی عالمی سطح پر سپلائی میں بھی اس کا اہم کردار ہے۔
اسرائیل کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات قائم ہونے کی اُمید
ماہرین کے مطابق اسرائیل کو اُمید ہے کہ بائیڈن کا یہ دورہ اسرائیل اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔
ؒخیال رہے کہ امریکہ کے تعاون سے اسرائیل کے 2020 میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہو گئے تھے۔
سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو مستقبل قریب میں تسلیم کرنے کے بظاہر کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے، تاہم ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے منگل کو 'اے ایف پی' کو بتایا کہ بائیڈن کا یہ دورہ اس جانب ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔
اسرائیل، فلسطین تنازع
دورۂ اسرائیل کے دوران بائیڈن اسرائیلی حکام کے ساتھ دو طرفہ اُمور بالخصوص اسرائیل، فلسطین تنازع اور ایران کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی طے کرنے پر غور کریں گے۔
بائیڈن فلسطینی حکام سے بھی ملاقاتیں کریں گے جو یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ امریکہ کی عدم دلچسپی کے باعث خطے میں اُن کے بقول 'اسرائیلی جارحیت' بڑھتی جا رہی ہے۔
بائیڈن کے لیے اسرائیل، فلسطین تنازع کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 1973 میں پہلی بار سینیٹ کے رُکن منتخب ہونے کے بعد بھی وہ خطے کا دورہ کر چکے ہیں۔ لیکن اس وقت صورتِ حال مختلف تھی، ایران اور اسرائیل حلیف تھے لیکن اب اسرائیل ایران کو خطے میں اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔
دورے کا محور ایران
دو ہفتے قبل اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے والے اسرائیل کے نگران وزیرِ اعظم یائر لیپڈ کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کے دورۂ اسرائیل کا محور ایران ہو گا۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق بائیڈن کے اسرائیل پہنچنے کے فوری بعد اسرائیل فوج اُنہیں اپنے تیار کردہ 'آئرن بیم سسٹم' کا معائنہ کرائے گی۔ اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ جدید سسٹم ایران کے ڈرون میزائل سسٹم کے خلاف بہت مؤثر ہے۔
اسرائیل کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا، تاہم وہ 2015 میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کی بحالی کا مخالف ہے۔ جوہری معاہدے کی بحالی سے ایران کے خلاف پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے استقبال کے لیے یروشلم میں ایک ہزار پرچم لہرائے جائیں گے۔
خیال رہے کہ صدر بائیڈن نے اپنے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا متنازع فیصلہ تاحال واپس نہیں لیا۔
فلسطینیوں کا یہ مؤقف ہے کہ اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو بطور دارالحکومت اسرائیل میں ضم کر لیا ہے اور صدر بائیڈن نے تاحال اس وعدے پر عمل نہیں کیا کہ وہ اس تنازع کے حل کے لیے مخلصانہ کوششیں کریں گے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کی فتح تحریک کے رہنما جبریل رجب نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ ہم صرف خالی الفاظ سن رہے ہیں جب کہ کوئی عملی اقدام نہیں ہو رہا۔"
صدر بائیڈن جمعے کو مغربی کنارے میں فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی ملاقات کریں گے۔امریکہ اور فلسطینیوں کے تعلقات میں حالیہ دنوں میں اس وقت مزید تناؤ آ گیا تھا جب عرب نشریاتی ادارے الجریزہ کی رپورٹر شیریں ابو عاقلہ کی ہلاکت کے معاملے پر امریکہ کی تحقیقاتی رپورٹ پر فلسطینی حکام نے عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
واضح رہے کہ دو ماہ قبل فلسطین کے مغربی کنارے کے جینین کے علاقے میں اسرائیلی فوج کے ایک آپریشن کے دوران شیریں ابو عاقلہ گولی لگنے سے ہلاک ہوگئی تھیں۔
امریکی حکام نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ گولی اسرائیلی فوج کی جانب سے چلائی گئی ہو، لیکن اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔