یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق (ای سی ایچ آر) نے کہا ہے کہ پیغمبرِ اسلام کی توہین آزادیٔ اظہار کی جائز حدوں سے متجاوز ہے اور ایسا کرنے سے مذہبی تعصب کو فروغ مل سکتا ہے۔
عدالت نے یہ فیصلہ ایک خاتون کی اپیل پر دیا ہے جنہیں آسٹریا کی ایک عدالت نے پیغمبرِ اسلام کے خلاف توہین آمیز گفتگو پر جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اس سزا کو بعد ازاں ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے بھی برقرار رکھا تھا۔
یورپی عدالت کے سات رکنی بینچ نے جمعرات کو اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ آسٹریا کی مقامی عدالتوں نے خاتون درخواست گزار کے بیانات کا ان کے مکمل سیاق و سباق میں جائزہ لیا تھا اور اس ضمن میں خاتون کے آزادیٔ اظہار کے حق اور دوسروں کے مذہبی جذبات کے تحفظ کے حق کے درمیان توازن قائم رکھا تھا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ آسٹرین عدالتوں کے فیصلوں کا مقصد ملک میں مذہبی امن قائم رکھنا تھا جو ایک جائز مقصد ہے۔
یورپی عدالت کے مطابق خاتون کے توہین آمیز بیانات کو بامقصد مکالمے کی جائز حدود سے متجاوز قرار دینے اور انہیں پیغمبرِ اسلام کی توہین قرار دینے کا آسٹرین عدالتوں کا فیصلہ شواہد کے مطابق اور درست تھا کیوں کہ ان بیانات کے نتیجے میں مذہبی امن خطرے سے دوچار ہوسکتا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ آسٹرین عدالتوں کے فیصلے سے درخواست گزار خاتون کا آزادیٔ اظہار کا حق پامال نہیں ہوا۔
درخواست گزار خاتون کی اصل شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے اور انہیں ذرائع ابلاغ اور عدالتی دستاویزات میں مسز ایس کے نام سے پکارا جاتا رہا ہے۔
آسٹریا کی شہری مسز ایس نے 2009ء میں 'اسلام کے متعلق بنیادی معلومات' کے عنوان سے دو سیمینار منعقد کیے تھے جس میں انہوں نے پیغمبرِ اسلام پر بعض الزامات لگائے تھے۔
بعد ازاں ویانا کی ایک عدالت نے خاتون کے الزامات کو مذہبی عقائد کی توہین قرار دیتے ہوئے ان پر 480 یورو جرمانہ اور مقدمے کی کارروائی کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے کی سزا سنائی تھی۔
مسز ایس نے مقامی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ویانا کی اپیل کورٹ سے رجوع کیا تھا جسے عدالت نے مسترد کرتےہوئے ذیلی عدالت کے فیصلے کو درست قرار دیا تھا۔
بعد ازاں خاتون نے آسٹریا کی سپریم کورٹ میں مقدمے کی کارروائی دوبارہ چلانے کی درخواست دائر کی تھی جسے 2013ء میں سپریم کورٹ نے بھی مسترد کردیا تھا۔
آسٹرین عدالتوں کے فیصلے کے خلاف خاتون نے بعد ازاں یورپ کی عدالت برائے انسانی حقوق سے رجوع کیا تھا۔
خاتون نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ ان کے بیانات کا مقصد پیغمبرِ اسلام کی توہین نہیں بلکہ معاشرے میں جاری مکالمے کا حصہ بننا تھا۔ خاتون کا موقف تھا کہ آسٹرین عدالتوں کا فیصلہ آزادیٔ اظہارِ رائے کے ان کے حق کے خلاف ہے جو یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق کی شق نمبر 10 کے خلاف ہے۔
تاہم یورپی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اس معاملے میں شق 10 کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور خاتون کے بیانات مکالمے کے مروجہ اصولوں کے خلاف تھے۔ یورپی کنونشن کی یہ شق آزادیٔ اظہار کی ضمانت دیتی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ مذہبی عقائد پر تنقید ہوسکتی ہے اور انہیں جھٹلایا بھی جاسکتا ہے۔ لیکن جب مذاہب سے متعلق بیانات تنقید کی مروجہ حدود سے باہر نکلتے ہیں تو ان کے نتیجے مذہبی عدم برداشت بڑھ سکتی ہے جسے روکنے کے لیے حکومتوں کو اقدامات کرنے کا حق ہے۔
یورپین عدالت برائے انسانی حقوق فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں قائم ہے جس کا مقصد رکن ملکوں میں یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق کے نفاذ اور اس کی خلاف ورزیوں کی شکایات کا جائزہ لینا ہے۔