اقوام متحدہ کے مطابق بھارت چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اس سال کسی وقت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ چین کی اس ماہ کی رپورٹ کے بعد کہ 60 سالوں میں پہلی بار اس کی آبادی کم ہوئی ہے، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں پہلے ہی چین سے زیادہ آبادی ہے۔
ایک غیر منافع بخش تنظیم پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر پونن متریجا نے کہا کہ یہ غیر متوقع نہیں ہے۔ ’’ہمیں معلوم تھا کہ ہم 2027 میں چین کو پیچھے چھوڑ دیں گے لیکن چین کی آبادی میں کمی کی وجہ سے ایسا تیزی سے ہوا ہے۔‘‘
دونوں ممالک کی آبادی تقریباً 1.4 بلین ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق، چین کو پیچھے چھوڑنا صرف ایک نمبر نہیں ہے - یہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب چین کی آبادی اندازوں سے پہلےہی کم ہونا شروع ہو گئی ہے، بھارت کی آبادی مزید تین دہائیوں تک بڑھتی رہے گی۔
لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب چین کی آبادی میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے، تقریباً نصف بھارتی باشندے 25 سال سے کم عمر کے ہیں۔ یہ چیز بھارت کے لیے اقتصادی فوائد حاصل کرنے کے ایک موقع کی نمائندگی کرتی ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت کچھ اس بات پر منحصر ہوگا کہ ملک اپنی افرادی قوت، خاص طور پر کام کرنے کے قابل عمر والی بڑی آبادی کا فائدہ کیسے اٹھاتا ہے۔
یہ نوجوان ایک ایسے وقت میں ہنر اور محنت کا وسیلہ بن سکتے ہیں جب بہت سے ملکوں میں لوگ بوڑھے ہو رہے ہیں اوروہ بھارت کے لیے ممکنہ طور پر ایک بڑی ابھرتی ہوئی مارکیٹ بن سکتے ہیں جو عالمی کمپنیوں اور سرمایہ کاری کو راغب کرے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایس وائی قریشی، ایک سابق الیکشن کمشنر ہیں، جنہوں نے ’’دی پاپولیشن متھ - اسلام، فیملی پلاننگ اینڈ پالیٹکس ان انڈیا‘‘ پر ایک کتاب تصنیف کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’’ہم کھپت کے لحاظ سے ایک بڑی مارکیٹ ہیں، اور ہم تربیت یافتہ افرادی قوت کے سب سے بڑے سپلائر بھی ہو سکتے ہیں‘‘ ۔
تاہم انہوں نے توجہ دلائی کہ ایک ہی وقت میں چیلنجز ہیں. مثال کے طور پر، بھارت کو اس دہائی کے اختتام سے پہلے غیر زرعی شعبوں میں 9 کروڑ ملازمتیں تشکیل دینے کی ضرورت ہوگی۔
یہ تعداد پریشان کن ہے - بھارت میں پہلے ہی 90 کروڑ افراد کام کرنے کی عمر میں ہیں اور یہ تعداد دہائی کے آخر تک ایک ارب کے نشان کو چھونے والی ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں بہت سے نوجوانوں کے لیے حالیہ برسوں میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح پریشانیاں پیدا کر رہی ہے۔
اب جب کہ بھارت کی معیشت کووڈ۔ 19 کی وبا کے اثرات سے نکل چکی ہے، اور اب وہ دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی بڑی معیشت ہے۔ تخمینوں کے مطابق، اس کی صرف 40 فیصد افرادی قوت کے پاس روزگار ہے یا وہ ملازمتوں کی تلاش میں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کالج اسٹوڈنٹس اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ ایک انڈر گریجویٹ طالب علم انمول جین کا کہنا ہے کہ ’’زیادہ لوگ، کم ملازمتیں، اور مقابلہ زیادہ - بڑی آبادی ہمارے لیے نقصان دہ ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ پوسٹ گریجویٹ کورس میں داخلے کے امتحانات جس کی وہ تیاری کر رہے ہیں، ان میں مسابقت اور بھی بڑھ جائے گی۔
لیکن ایسے افرد کو جو بھارت کے نوجوانوں کو متحرک اور مواقع کی نمائندگی کرنے والوں کے طور پر دیکھتے ہیں، ایک امید بھی موجود ہے۔ایک اور کالج کے طالب علم آران گلیا نے کہا کہ ، ’’نوجوان ذہنوں میں زیادہ خیالات ہوتے ہیں۔ انٹرپرینیورشپ ہی اس کا حل ہے،مجھ جیسے لوگوں کے پاس خیالات ہیں۔ میرے پاس سرمایہ نہیں ہے لیکن اگر نوجوان بھارت کے پاس خیالات ہیں تو ہم اپنا راستہ بنا سکتے ہیں۔
اس صلاحیت کو حاصل کرنے کے لیے، ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پالیسی سازوں کو معیاری تعلیم تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے تیزی سےپیش رفت کرنی چاہیے - ملک کی صرف پانچ فیصد افرادی قوت نے کسی ہنر کی باضابطہ تربیت حاصل کی ہے۔ سابق الیکشن کمشنر قریشی نے کہا کہ ’’یہ تعداد قابل قبول نہیں ہے، اسے بہت زیادہ ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے ہمیں اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
بنیادی طور پر بھارت کی کم ترقی یافتہ، غریب شمالی ریاستوں جیسے کہ اتر پردیش اور بہار کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے، جہاں تعلیم کی سطح کم ہے اور آبادی جنوبی ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس نے خواندگی کی سطح میں بہتری کے ساتھ ہی ان کی آبادی میں اضافے کی شرح کو بھی سست کر دیاہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
متریجا کا کہنا ہے کہ دو چیزیں ہیں: ایک نئی نسل کو ہنر مند بنانا، دوسرا ان لوگوں کی مہارتوں کو بڑھانا جن کے پاس زیادہ پیداواری ہونے کے لیے اعلیٰ ترین مہارت نہیں ہے۔ ایسے علاقوں کی نشاندہی کریں جہاں مستقبل میں ملازمت کے مواقع پیدا ہونے والے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ رفتار بڑھی ہے، تاہم یہ اب بھی سست ہے۔ اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ اسمارٹ فونز تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے ، وہ متنبہ کرتی ہیں کہ خاطر خواہ مواقع فراہم کرنے میں ناکامی سماجی کشیدگی کا باعث بنے گی،اور اس سے بہت سارے نوجوان، بے روزگار، مایوس، ناخوش ہوں گے۔ لہذا، ہمیں ان میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔
بہت سے طلباء بھی یہی چاہتے ہیں کہ انہیں صحیح ہنر میں مہارت فراہم کی جائے۔ ایشیتا سود جو دہلی یونیورسٹی کے سب سے موقرکالجوں میں سے ایک کی انڈرگریجویٹ طالبہ ہیں کہتی ہیں کہ کیونکہ جو کچھ انہیں ابھی کالج میں پڑھایا جا رہا ہے وہ ان کی ملازمتوں سے زیادہ تعلق نہیں رکھتا ے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایک بہت بڑے ووٹ بینک کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ امید کرتی ہیں کہ حکومت اپنی نوجوان آبادی کی ضروریات پر زیادہ توجہ دے گی۔
پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر پونن متریجا نے کہا۔بھارت کے پاس اپنی نوجوانوں سے آبادی سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے محدود گنجائش ہے ۔ جیسے جیسے تعلیم میں بہتری آتی ہے اور آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے، خواتین میں بچوں کی کم تعداد کی جانب رجحان میں اضافہ ہوتا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، خواتین اوسطاً دو یا دو سے کم بچے پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ لہذا، ہماری آبادی بہت تیزی سے کم ہونے والی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ چین کی طرح بھارت کی آبادی بھی جلد ہی بڑھاپے کی جانب بڑھنے والی ہے۔
(رپورٹ: انجنا پسریچہ، وائس آف امریکہ)